مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
میں رہنایہ مرادِ نبوت ہے، اور جس کو یہ ذوق وشوق نہ ہو وہ مراد ِنبوت سے محروم ہے۔ جس کو اہل اللہ سے بغض اور نفرت ہویا اُن کے پاس بیٹھنے کو اس کا دل نہ چاہے تو وہ نبی کی اس مراد اور مقصد سے دور ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوقِ نبوت یہ اعلان کررہا ہے کہ اے خدا کے عاشقو! میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہوگا، چناں چہ جوملّا اپنے علم پر ناز کرے اور کہے کہ مجھے اللہ والوں کی کوئی ضرورت نہیں تو ایسا شخص مرادِ نبوت سے محروم ہے، کیوں کہ نبی خدا کے عاشقوں کے لیے فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس بیٹھنے کا حکم دیا ہے اور اب میرا جینا مرنا بھی تمہارے ساتھ ہی ہوگا۔ لہٰذا اہل اللہ کے پاس رہنے اور صالحین کی صحبت اختیار کرنے کو اتنی بڑی نعمت سمجھنا چاہیے کہ گویا جنت آسمان سے زمین پر آگئی ۔ اس پر میرا ایک شعر ہے ؎میسر چوں مرا صحبت بجانِ عاشقاں آید ہمیں بینم کہ جنت بر زمیں از آسماں آید اللہ والوں کی محبت اس حدیث کی رو سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ نبوت کی رو سے نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہو کر خدا کے عاشقوں کے لیے فرمارہے ہیں کہ میرا مرنا جینا ان کے ساتھ ہوگا۔ اس کو غور سے سمجھیے کہ اہل اللہ کی صحبت کتنی قیمتی چیز ہے۔ حدیث کے اس مضمون کو میں نے اپنے شعر میں پیش کیا ہے ؎مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا مجھے کچھ خبر نہیں تھی ترا درد کیا ہے یا رب ترے عاشقوں سے سیکھا ترے سنگِ در پہ مرنا یعنی ہم نے اللہ تعالیٰ پر مرنا کہاں سے سیکھا ہے؟ جو اللہ پر فداتھے ان کی صحبتوں سے ہمیں اللہ پر مرنا آیا۔ دُنیا کی حقیقت جو دنیا پر مررہے ہیں تو انہیں اپنی قیمت ، اپنی سلطنت کی قیمت، تخت وتاج کی قیمت،