مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کرے۔ اگر آپ کاکوئی دوست آپ سے کہہ دے کہ آپ تو ہمیں کبھی یاد ہی نہیں آتے، تو آپ بھی اس سے کہیں گے کہ بس ہمیں بھی آپ کا مقامِ عشق معلوم ہوگیا کہ آپ ہمارے کتنے بڑے عاشق ہیں۔ توا للہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اَلَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ یعنی میرے عاشقوں کا حال یہ ہے کہ صبح وشام مجھے یاد کرتے رہتے ہیں اور ان کے قلوب میں بس میری ہی ذات مراد ہے، میں ہی ان کا مقصود ہوں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ جس کی زندگی کی مراد اللہ تعالیٰ ہو، تو کیا اس کی زندگی کی ہر سانس اور اس کا ہر لمحۂحیات خالقِ حیات پر فدانہ ہوگا؟ صحابہ کرام کے آثارِ عشق مفسرین لکھتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ صحابہ مسجد نبوی میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول تھے۔ ان میں تین قسم کے صحابہ تھے، ایک تو ذَاالثَّوْبِ الْوَاحِدِ ایک کپڑا پہنے ہوئے تھے، اتنے غریب تھے کہ ایک ایک کپڑے میں تھے۔ دوسرے اَشْعَثَ الرَّأْسِ بکھرے ہوئے بالوں والے تھے، تیل خریدنے کے لیے پیسے ہی نہ تھے اور ان کے چہرے کیسے تھے؟ جَافَّ الْجِلْدِ 2؎ فاقوں کی کثرت سے کھال خشک ہوگئی تھی۔ کھال سے انسان کی حالت کا پتا چل جاتا ہے، غریبوں کی کھال بتادیتی ہے کہ یہ غریب ہے اور امیروں کی کھال بتادیتی ہے کہ یہ امیر ہے، اندر کے روغن کا اثر اس کی کھال پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ذِکر اللہ کا روغن اور بریانی کھاتے ہیں ان کی کھالوں سے ذِکر کے انوار ظاہر ہوتے ہیں: سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ 3؎میرے شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر فرماتے تھے کہ راتوں کی عبادتوں سے جب صحابہ کرام کے قلوب میں نور بھر جاتا تھا، تو آنکھوں سے چھلکنے لگتا تھا اور چہروں سے جھلکنے لگتا تھا۔ یَبْدُوْ مِنْ بَاطِنِھِمْ اِلٰی ظَاہِرِ ھِمْ 4؎ _____________________________________________ 2؎الدرالمنثور:523/9،الکہف (28)،مرکز ھجر للبحوث العربیۃ 3؎الفتح: 29 4؎روح المعانی:125/26،الفتح(29)،داراحیاءالتراث،بیروت