مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
آں چنانش اُنس و مستی داد ِ حق حضرت یوسف علیہ السلام نے جب قید خانہ میں قدم رکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی محبت کا ایسا فیضان فرمایا ، ان پر ایسی مستی اور ایسی کیفیت طاری کی اور اپنی ذات پاک کے ساتھ ایسا اُنس عطا فرمایا ؎کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق ان کو نہ قید خانہ یاد آیا اور نہ ہی قید خانے کی تاریکی نظر آئی،انہیں پتا بھی نہیں چلا کہ میں قید خانے میں ہوں۔ دوستو! اگر اللہ تعالیٰ سے آج بھی تعلق جوڑ لو تو تمہارے غم خوشی بنادیے جائیں گے ؎چوں او خواہد عینِ غم شادی شود عین بند پائے آزادی شود حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کلید مثنوی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو غم کی عینِ ذات کو خوشی بنادیتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ غم کے اسباب کو دور کر کے خوشی کے اسباب لائے جائیں، جیسے کہیں آگ لگی ہوتو اس کی گرمی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے آگ بجھاؤ اس کے بعد ٹھنڈک پیدا ہوگی، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ پہلے آگ بجھائی جائے، وہ آگ ہی کو ٹھنڈک بنادینے پر قادر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آگ سے اُس کی گرمی سلب کرکے آگ ہی کو برف بنادینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں عینیتِ مصطلحہ مراد ہے یعنی غم کی عینِ ذات کو اللہ تعالیٰ خوشی بنادینے پر قادرہیں، وہ غم کی ذات کو ہی خوشی کردیتا ہے۔ دنیا والے تو پہلے غم دور کریں گے پھر خوشی لائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ غم کی ذات ہی کو خوشی بنادیتا ہے۔ اس غم سے فرما دیتا ہے کہ اے غم! میرے اس بندے کے دل میں خوشی بن جا تووہی غم خوشی بن جاتا ہے۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بہت بہترین شرح کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ قہار ہے، قادرِمطلق ہے اورمحدثین نے قہارکی یہ شرح کی ہے ھُوَالَّذِیْ یَکُوْنُ لَہٗ کُلُّ شَیْءٍ مُسَخَّرًا تَحْتَ قَدْرِہٖ وَقَضَائِہٖ وَقُدْرَتِہٖ یعنی جس کی قضا وقدر اور قدرت کے تحت ہر شئی مسخّر ہو، پس خوشی اور غم