ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
خلاصہ یہ کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے کفرو ضلالت کے مقابلہ کے لیے نورِ الٰہی اور سچے دین و حقانیت کے پھیلانے کے لیے تین تلواریں تیار کیں : (١) اوّل خداوندی اور آسمانی تلوار یعنی پوری کوشش فرماتے رہے کہ پرور دگارِ عالم کے سچے مطیع ہوکر اُس کو اپنے سے خوش اور اپنا دونوں جہان میں مددگار اور آقا بنا لیں اور اُس کی توجہ اور عنایت کو اپنی طرف کھینچ لیں اور اِس کے لیے تعلق خلق با خلق کو ہمیشہ منظم فرماتے رہے جس کی وجہ سے آیت (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ) ١ ''یہ اس لیے کہ خدا ایمان والوں کا آقا اور مددگار رہے اور کافروں کاکوئی آقا اور مددگار نہیں'' ( فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَوْلٰکُمْ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ) ٢ ''اے مسلمانو ! جان لوکہ خدا تمہارا آقا اور مدد گارہے پس اچھا آقا اور مددگار ہے وہ '' اور اس کی ا مثال نازل ہوئیں جن میں پورا یقین دلایا گیا کہ خدا وند کریم تم لوگوں کا مددگار اور ہر طرح معاون ہے۔ (٢) دوسری تلوار اخلاقی اور رُوحانی تھی جس کے ذریعہ سے صرف اپنے متبعین کی اخلاقی کیفیت درست نہیں کی گئی بلکہ جملہ ہمسایہ اور مخالفین کو اپنا محب اور مطیع بنایا گیا اور بہت تھوڑی سی مدت میں پورب، پچھم ،اُتّر ،دَکَّھن ٣ جہاں جہاں وہم و گمان بھی نہ ہوتاتھاوہاں وہاں اسلام کا پر چم لہرانے لگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ظالم کومعاف کردینے اور برائی کابدلہ برائی اور سختی سے نہ دینے سے ہماری ذلت اور کمزوری ہوجاتی ہے اور دشمن قوی ہوجاتاہے مگر قرآنِ پاک وہ تعلیم دیتا ہے جو اِس کے ما سوا ہے ( وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّیِّئَةُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَة کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْم ) (سُورہ حٰم السجدہ : ٣٤ ) ''بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ہیں، برائی کو بھلائی سے دفع کیجئے (اور سختی کا بدلہ نرمی سے دیجیے) تو جس شخص کی تم سے سخت عداوت تھی وہ مثل خالص دوست اور مدد گار کے ہو جائے گا۔''١ سُورہ محمد : ١١ ٢ سُورة الانفال : ٤٠ ٣ مشرق، مغرب، شمال، جنوب