ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
ارشادِ الٰہی ہوا : آدم کیا بھاگنے کے لیے نیچے کو دبک رہے ہو ؟ حضرت آدم : میرے مالک حیا کے باعث سرنگوں ہوں، تجھ سے بھاگ کر کہاں جاؤں ؟ '' حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''آدم علیہ السلام کا بدن چھریرہ تھا،قد دراز جیسے کھجور کا تنہ، سر پر لانبے لانبے گھنے بال، جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو اُن کی شرمگاہ نظر آنے لگی پہلے دکھائی نہیں دیتی تھی ١ تب حضرت آدم علیہ السلام گھبراکر جنت میں بھاگنے لگے تو ایک درخت میں اُلجھ گئے آپ نے فورًا کہا ........ چھوڑ درخت : نہیں چھوڑوں گا۔ آپ درخت کی اِسی حالی یاقالی گفتگو میں مشغول تھے کہ ندا آئی : آدم .......... مجھ سے بھاگتے ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام : ''خدا وندا شرمندہ ہوں منہ چھپاتاہوں۔'' ٢ امام اوزاعی رحمة اللہ علیہ نے حضرت حسان بن عطیہ سے نقل کیا ہے کہ '' حضرت آدم علیہ السلام جنت میں سو سال رہے اور ایک روایت میں ستر سال کا تذکرہ ہے اور جنت سے نکالے جانے پر ستر سال روئے، اپنی خطا پر ستر سال اور لڑکے کے قتل کیے جانے پر چالیس سال۔'' ٣سلسلہ ٔ پیدائش : یہ پہلے گزر چکا کہ نصِ قرآن نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے فراق کی کوئی مدت بیان نہیں کی اور نہ وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ باہمی فراق بھی ہوا تھا البتہ کچھ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصہ تک حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے درمیان فراق رہا، مقدارِ مدت کے بیان میں روایتوں کا اختلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں فراق کی مدت سو سال١ یعنی برہنہ ہوگئے ٢ طبقات ابن سعد ج ١ ص ٩ ٣ تاریخ ابن کثیر ج ١ ص ٨٠