ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
بہر حال درخت جم آیا پھر اُس کو کاٹا پھر صاف کیا پھٹکا پچھوڑا پھر پیسا پھرگوندھا پھر اُس کی روٹی پکائی، الحاصل ایک بڑی محنت کے بعد وہ دانے پیٹ تک پہنچ سکے، قرآنِ پاک میں اِسی محنت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا گیا تھا ( فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰی) ١ ''ا یسا نہ ہو کہ شیطان تم کو جنت سے نکال دے پھر تم (جنت کی بے فکری سے) محروم ہوجاؤ۔'' حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو غیب سے اَلْمَرُّ (بیلچہ، کدال) اَلْعَلَاةُ یعنی سِندان ،اَلْمِطْرََقةُ یعنی ہتھوڑا، اَلْکَلْبَتَانْ یعنی سنڈاسی بھی دی گئی تھی، جب حضرت آدم علیہ السلام پہاڑ پر تھے جس پر اُن کواُتارا گیاتھا تو اُنہوں نے ایک لوہے کی سلاخ دیکھی جو زمین سے نکلی ہوئی تھی جیسے کوئی درخت اُگاہوا ہو، تو اُس کو دیکھتے ہی کہا یہ ''ہتھوڑا'' اِسی کا ہے، پھر سوکھے درخت توڑ توڑ کر سوختہ فراہم کیا اوراُس کو جلا کر لو ہے کو پگھلا دیا اور چھری ڈھالی یہ سب سے پہلی چیز تھی جو بنائی گئی پھر آہنی تنور بنایا گیا یہی تنور تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کو ترکہ میں ملا تھا اور اِسی میں طوفانِ نوح کے وقت سب سے پہلے عذاب کا چشمہ اُبلا تھا۔لباس : تاریخ ابن کثیر میں ہے : وَکاَنَ اَوَّلُ کِسْوَتِھِمَا مِنْ شَعْرِ الضَّأْنِ جَزَّاہُ ثُمَّ غَزْلاَہُ فَنَسَجَ آدَمُ لَہ جُبَّةً وَلِحَوَّائَ دِرْعًا وَخِمَارًا ۔ (تاریخ ابن کثیر ج ١ ص ٩٢) ''اُن کا سب سے پہلا لباس بھیڑ کے بالوں کا تھا ،حضرت آدم اور حوا نے بال کاٹے پھر دونوں نے اُن کو کاتا پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے لیے جبہ اور حضرت حوا کے لیے کر تا اور اوڑھنی بُنی۔''١ سُورہ طٰہٰ : ١١٧