ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
حج : حضرت آدم علیہ السلام نے پاپیادہ چالیس حج اداکیے۔ (طبقات ابن سعد) دُنیا میں سب پہلی خونریزی : (سب سے پہلا ظالم ،سب سے پہلا مظلوم اور سب سے پہلا مبنا ئِ فساد) حضرت آدم علیہ السلام کا بڑا لڑکاجس کا نام ''قابیل'' بتایا جاتا ہے کھیتی کرنے لگا تھا، چھوٹا لڑکاجس کا نام'' ہابیل'' بیان کیا گیا ہے بکری چرا تا تھا، کھیتی والے کی بہن خوبصورت تھی مگر اُس سے اِس کا نکاح اُس زمانہ کے قانون کے بموجب نہیں ہوسکتاتھا (جیسا کہ اُوپر ذکر کیاگیا) بکریوں والے چھوٹے لڑکے کی بہن بد صورت تھی اُس کا نکاح کھیتی والے سے ہونا چاہیے تھا مگر بڑے لڑکے یعنی کھیتی والے کی نیت میں فساد آگیا اُس نے چاہا کہ حکمِ شریعت کے برخلاف حقیقی بہن کو حبالہ ٔ عقد ١ میں لے آئے حالانکہ یہ شکل حرام اور ممنوع تھی، اب دونوں بھائیوں میں آپس میں بحث ہوئی حضرت آدم علیہ السلام نے بتایا کہ خدا وندا عالم کا حکم یہی ہے تو قابیل نے اِس کو آدم کی من گھڑت بتا کر انکار کردیا، چھوٹے بھائی یعنی ہابیل نے کہا اچھا اپنی اپنی قربانیاں پیش کریں جس کی قربانی قبول ہوجائے گی وہی اِس لڑکی کا مستحق ہوگا چنانچہ ہابیل جس کے پاس بکریاں تھیں وہ اچھی قسم کاایک سفید دُنبہ سینگوں والا موٹا تازہ نہایت مسرت کے ساتھ قربانی ٢ کے لیے لایا اور قابیل جوکھیتی کیا کرتا تھا اُس نے تنگدلی اور کوفت کے ساتھ خراب غلہ کا ایک ڈھیر لگا دیا اوردل میں یہی خیال تھا کہ قربانی قبول ہو یا نہ ہو مجھے بہرحال حسینہ سے نکاح کرنا ہے پس دُنبہ قبول کر لیا گیا اوراُس کو خدا وند عالم نے محفوظ رکھا چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے جو دُنبہ غیب سے آکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا تھا وہ یہی دُنبہ تھا اِس دُنبہ کو چالیس سال جنت میں بھی رکھا گیا تھا۔١ نکاح کا بندھن ٢ اُس زمانے کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کاسامان میدان میں رکھ دیاجاتا تھا ،ایک آگ غیب سے ظاہر ہوتی تھی جس کی قربانی کو وہ آگ جلا دیتی تھی وہ مقبول مانی جاتی تھی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ قربانی کی چیز جلائی جاتی تھی جس کی چیز جل جاتی تھی وہ قبول مانی جاتی تھی اور جو مردود ہوتی تھی وہ نہیں جلتی تھی ، بہر حال قبولیت کے پہچاننے کا جو طریقہ بھی ہو وہ زیرِ بحث نہیں ہے قرآنِ حکیم نے یہ بتایا ہے کہ ایک کی قربانی قبول ہوئی دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔