ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
حرف آغاز سید محمود میاں نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ ! کچھ روز قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ'' کچھ اوباش قسم کے لوگوں نے کسی خاتون سے زیادتی کی اور اُس کی برہنہ تصویریں بنا کر اَپ لوڈ کر دیںاس اعلانیہ اور برسرِ عام تذلیل کا اس خاتون پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے خود کُشی کرلی ۔'' ........ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ یہ تو ایک واقعہ ہے جبکہ آئے دن اس سے بھی زیادہ شرمناک حوادث تسلسل کے ساتھ واقع ہورہے ہیںاور ان کی روک تھام کی بظاہر کوئی صورت نظر بھی نہیں آرہی جس کی ایک سب سے بڑی وجہ ان جرائم کے خلاف جاندار قانون کا نہ ہونا ہے۔اور اس سب کچھ کے باوجود تاحال قانون ساز اِداروں اور عدلیہ کی جانب سے ان جرائم پر قابو پانے اور ان کی فوری روک تھام کے لیے قانون سازی کے عمل کی طرف کوئی خاص پیش رفت بھی سامنے نہیں آئی،بس کبھی کبھار جج صاحبان کی طرف سے کچھ خفیف سا ناگواری کا اظہار اخبارات میں شائع ہوجاتا ہے جس میں ''مابدولت،کالے کوٹ کا تقدس اور عدلیہ کی بالا دستی ''جیسے معمول کے رسمی الفاظ کے ہیر پھیر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ محض تیوری کے بل اور اُنگلیوں کے خم سے مظلوموں کے درد کا مداوا نہیں ہوا کرتا،آخرت میں