ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
میں تو اِس قابل نہ تھا ( حضرت سےّد اَنور حسین نفیس الحسینی شاہ صاحب ) شکر ہے تیرا خدایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا تو نے اپنے گھر بلایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا اپنا دیوانہ بنایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا گِرد کعبے کے پھرایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا مدتوں کی پیاس کو سیراب تو نے کر دیا جام زم زم کا پلایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا ڈال دی ٹھنڈک میرے سینے میں تو نے ساقیا اپنے سینے سے لگایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا بھا گیا میری زباں کو ذکر اِلااللہ کا یہ سبق کس نے پڑھایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا خاص اپنے در کا رکھا تو نے اے مولا مجھے یوں نہیں در در پھرایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا میری کوتاہی کہ تیری یاد سے غافل رہا پر نہیں تو نے بُھلایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا میں کہ تھا بے راہ ، تو نے دستگیری آپ کی تو ہی مجھ کو راہ پے لایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا عہد جو روزِ اَزل تجھ سے کیا تھا یاد ہے عہد وہ کس نے نبھایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب گنبد خضراء کا سایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا میں نے جو دیکھا سو دیکھا جلوہ گاہِ قدس میں اور جو پایا سو پایا ، میں تو اِس قابل نہ تھا بارگاہِ سیّد کونین ۖ میں آ کر نفیس سوچتا ہوں ، کیسے آیا ؟ میں تو اِس قابل نہ تھا