ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
اِس صلح پر کسی طرح راضی نہ تھا مگر یہی صلح پیش خیمہ جملہ فتوحات کی ہوئی اور اِسی نے اسلام کی دھاک تمام عرب میں نہایت زور و شور سے بٹھا دی۔ قریش کی تلوار میں اِسی سے دندانے پڑ گئے نہایت زیادہ کند ہوگئی، سورۂ فتح اِسی سے واپسی پر نازل ہوئی جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بڑے بڑے سمجھدار جنابِ رسول اللہ ۖ سے نہایت تعجب کرتے ہوئے پوچھنے لگے اَوَ فَتْح ہُوَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ کیا یہ فتح ہے ؟ ؟ ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ! !حلمِ نبوی اور اُس کا کامیاب ثمرہ : اس سے تقریبًا دو سال کے بعد جبکہ خود نادانانِ قریش اور اُن کے بعض خلفاء کی جانب سے بدعہدی ہوئی اور اُنہوں نے معاہدہ کی شرط کو توڑ دیا تو جنابِ رسول اللہ ۖ نے دس ہزار نوجوانان جنگ آزمودہ کے ساتھ فوج کشی کی اور مکہ معظمہ پر چڑھائی کا بازار گرم ہو گیا، قریش اور اہلِ مکہ کے سیاہ کارنامے جوکہ بے حد اور بے پایاں تھے ظاہر بینوں کی نظر میں، اپنی قوت اور سطوت کا مظاہرہ کرنے والوں کی نظر میں، اپنی خود داری اور انتقامی کارروائیوں کے جاری کرنے والوں کی نظر میں، ملوکیت اور شوکت و دبدبہ قائم کرنے والوں کی نظر میں تویہ لازم تھا کہ ایک آدمی بھی مکہ والوں کا زندہ نہ چھوڑا جاتا کم ازکم یہ تو ضرور ہوتا کہ اُن کے جنگجو اور جوان آدمی بالکل قتل کر دیے جاتے مگر آپ نے وہی عفو و کرم اور مشفقانہ ہمدردی سے کام لیا، عالی حوصلگی اور بے تعصبی کا ثبوت دیا، اعلان کر دیا کہ ''جس نے اپنے گھر داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا اُس کو اَمن ہے جو مسجد ِ حرام میں داخل ہو گیااُس کواَمن ہے جوابوسفیان (رضی اللہ عنہ) کے گھر میں داخل ہو گیا اُس کو اَمن ہے وغیر ہ وغیرہ۔ پھر جب آپ تمام مکہ معظمہ پر قابض ہوگئے تو کسی کو غلام باندی بھی نہ بنایا جوکہ سب سے کم درجہ کا اُس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق انتقام تھا بلکہ سب کو آزاد چھوڑ دیا اور یہی وجہ ہے کہ تمام اہلِ مکہ کو ''طُلَقَائ'' کے لقب سے ملقب کیا گیا، ان لو گوں نے جب دیکھا کہ باجودیکہ زمانہ گزشتہ میں تقریبًا بیس برس تک پیہم نہایت شرمناک اور سخت سے سخت آزاردہ جرائم ہم سے رسول اللہ ۖ اور مسلمانوں کے حق میں صادر ہوتے رہے تھے کسی قسم کی اذیت ہم نے اُٹھا نہ رکھی تھی مگر آنحضرت ۖ