ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
قیامِ جنت اور جِلا وطنی کی مدت : جنت میںقیام فرمانے کے متعلق قرآنِ پاک اور مستند احادیث میں کسی مدت کا ذکر نہیں بلکہ آیات ِ قرآنی کی سیاق سے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ تمام چیزیں سلسلہ وار مزید تاخیر کے بدون ظہور پذیر ہوتی رہیں مگر بعض روایات میں اِن واقعات کی مدت کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے چنانچہ ابن سعد نے طبقات میں حضرت حسن سے نقل کیا ہے کہ جنت سے نکلنے پر حضرت آدم علیہ السلام تین سو بر س روتے رہے۔ ١ ایک طویل روایت کے ضمن میں ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ : ''آدم و حوا'' کا دوبارہ اجتماع مقامِ مُزدلفہ پر ہوا حضرت حوا کھسکتی ہوئی حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پہنچ گئیں اِسی مناسبت سے اُس مقام کانام ''مُزدلفہ'' ٢ نیز اِسی مقام کو ''جمع'' بھی کہتے ہیں کیونکہ حضرت حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کا اجتماع اِسی مقام پر ہوا تھا۔ مقامِ عرفات پر ایک دوسرے کو پہچاناچنانچہ اس کا نام'' عرفات'' ہوا ٣ اور دو سو برس تک اپنے فعل پر روتے رہے اور چالیس روز تک کچھ کھایا پیا نہیں اور سو برس تک حضرت حوا کے پاس نہیں گئے اس کے بعد حضرت حوا سے مباشرت ہوئی تو سلسلہ ٔ ولادت جاری ہوا۔'' (طبقات ابن سعد ج ١ ص ١٣) حافظ ابن عساکر نے امام تفسیر حضرت مجاہد سے روایت کیاہے کہ '' اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو اللہ کی ہمسائیگی سے الگ کردیں چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سر سے ٹوپی اُتاری اور حضرت میکائیل علیہ السلام نے مرصع پٹی جو پیشانی پر بندھی ہوئی تھی کھول دی اِسی اثناء میں ایک ٹہنی حضرت آدم علیہ السلام کے بدن سے اُلجھ گئی، سیّدنا آدم پہلے ہی خوفزدہ خوف ِالٰہی اور خشیت ِالٰہی کے باعث حواس باختہ ہو رہے تھے اِس اُلجھاؤ سے سمجھ گئے کہ عذابِ الٰہی آگیا، فورًا اَلْعَفْو اَلْعَفْو کہتے ہوئے نیچے کو سر جھکا لیا۔١ طبقات ابن سعد ج ١ ص ١٠ ٢ از دلاف، کھسکنا، قریب ہونا ٣ ماخوذ اَز معرفت