ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
اب قابیل بہت جھنجھلایا اُس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، ہابیل نے کہا اگر تو مجھے مارنے کو ہاتھ بڑھائے گا تو میں تیرے قتل کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، قربانی پیش کرنا تو شریعت کے مطابق تھا قتل و خون شرعًا حرام ہے میں اِس کا اِرتکاب نہ کروں گا میں تو رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی آئندہ نسل اِسی کافر سے چلی۔ ١شیطانی اور ربانی جذبات کی سب سے پہلی جنگ : قرآنِ پاک میں اِس واقعہ کواِس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مَنْ اَحَدِ ھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ o لَاَئِنْ م بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لَاَقْتُلَکَ ج اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَِمِیْنَ o اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْاَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ وَذٰلِکَ جَزَائُ الظّٰلِمِیْنَ o فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتَلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ)(المائدہ : ٢٧ تا ٣٠) ''اور آپ (اپنی قوم کو) آدم کے دو بیٹوں کے ایک واقعہ کی خبر سنا دیجئے جبکہ دونوں نے ایک نیاز پیش کی وہ ایک سے قبول کی گئی دوسرے کی نیاز قبول نہیں کی گئی اُس نے کہا میں تجھ کومار ڈالوں گا۔ (جس کی نیاز قبول کی گئی تھی) اُس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ صرف اُن ہی سے قبول کیا کرتا ہے جواُس سے تقوی کریں اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے میری طرف ہاتھ بڑھائے گا تو میں ایسا نہیں کروں گا ٢ کہ تجھ کو١ طبقات ابن سعد ١/١٣ ٢ شریعت اسلامیہ محمدیہ (علی صابہا الصلٰوة والسلام )میں اپنی جان کی حفاظت بھی فرض ہے اور یہ قطعاً حرام ہے کہ حملہ آور کے سامنے گردن جھکا دے ''سیر کبیر '' میں اِس کو خود کشی کا درجہ دیاگیا ہے لیکن آیت ِ کریمہ نے نہایت لطیف پیرایہ میں ایک اِشارہ فرمایا ہے کہ دفاع کی صورت میں بھی مقصد دفاع ہونا چاہیے قتل کرنا مقصود نہ ہونا چاہیے چنانچہ صحیحین کی حدیث ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا : اِذَا تَوَاجَہَ الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہِمَا فَکِلَاہُمَا مِنْ اَہْلِ النَّارِ (بخاری شریف:٧٠٨٣ ) (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)