ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2016 |
اكستان |
|
نے اور مسلمانوں نے قادر ہونے پر ہم سے کوئی انتقامی کار روائی نہیں کی بلکہ سب کے جرائم کو عفو کر دیا اس لیے عام لوگوں کو دین ِاسلام کی حقانیت اور رسول اللہ ۖ کے سچے پیغمبر اور مقرب ِ خدا وندی ہونے کایقین ہو گیا اور بااِستثنائے چند اشخاص سب کے سب سچے دل سے مسلمان ہوگئے (وہ مستثنیٰ اشخاص بھی چند دنوں کے بعد) اسلام کی حقانیت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگئے۔ عرب کے اطراف و جوانب کے جملہ قبائل نے جب جنابِ رسول اللہ ۖ کی اس قسم کی کریمانہ و مشفقانہ کار روائی کو مجرموں کے ساتھ دیکھا وہ بھی سب کے سب فوجاً فوجاً دین ِ اسلام کے گرویدہ اور حلقہ بگوش ہو گئے اسی لیے نواں سال ہجرت کا'' سالِ وفود'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے کہ اِس میں قبائلِ عرب نے وفود (ڈیپوٹیشن) بھیج کر اسلام کی تعلیم حاصل کی اور اُس کی حلقہ بگوشی کا اعلان کیا، غرضیکہ اس عالی ظرفی اور عالی ہمتی کی کا ر روائی اور بہادرانہ اخلاق نے اس طرح قلوب ِ انسانی کو مسخر کرلیا کہ تمام قلمرو عرب میں بجز چند قبائل ضدی یہود کے (جو کہ خیبر، تیمائ، صنعاء وغیرہ میں آباد تھے) تمام عرب مسلمان ہوگئے اور تمام سر زمینِ عرب سے تو حید کے نعرے بلند ہونے لگے۔ مدینہ منورہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی ٔ جس کا نفاق اظہر من الشمس ہو چکا تھا اوربہت سی آیتیں اُس کے منافق اور دشمن ہونے کے ثبوت میںنازل ہوچکی تھیں اُس کے سیاہ کار ناموں سے خود جنابِ رسول اللہ ۖ اورآپ کے اہل و عیال اور رُفقاء کو بہت زیادہ تکلیفیں اور صدمات اُٹھانے کی نوبت آچکی تھی ،جب ٨ یا ٩ ھ میں مرتا ہے تو جنابِ رسول اللہ ۖ اُس کے لڑکے کو اپنا کرتہ اُس کاکفن بنانے کے لیے دیتے ہیں اُس کے جنازہ کی نماز پڑھاتے ہیں آپ کی بغیر خبر کے جب اُس کو لحد میں رکھ دیا جاتا ہے تو لحد میں سے نکال کر اُس کا سر اپنے گھٹنے پر رکھتے ہیں اور اُس کے منہ میں لعاب ِ دہن مبارک ڈالتے ہیں اور جب آپ کے معزز رفیق حضرت عمر رضی اللہ عنہ اِس اَمر میں جھگڑا کرتے ہوئے مانع ہوتے ہیں اور اُس کی دشمنی کے کارناموں کی داستان پیش کرتے ہیں تو آپ اُن کو جھڑک دیتے ہیں۔ اس عالی حوصلگی اور بے نظیر عالی ظرفی اور بہادری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُسی دن تقریبًا ایک ہزار آدمی قبیلہ خزرج کے حلقہ بگوشِ اسلام سچے دل سے ہوجاتے ہیں۔