ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2016 |
اكستان |
|
اور بد عت کے متعلق اِرشاد ہوا : کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة وَّکُلُّ ضَلَالَةٍ فِیْ النَّارِ ''ہر ایک بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آتش ِ جہنم میں۔'' سیّدنا آدم علیہ السلام کے اغواء کی شکل بھی وہی اِختیار کی جوایک قربِ الٰہی کے عاشق اور شیدائی کے لیے نہایت دلفریب تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام سے شجرِ ممنوعہ کی تاثیر بیان کی کہ (١) اِس کے کھانے سے انسان فرشتہ ہو جاتا ہے ۔ (٢) یہ آبِ حیات کی خاصیت رکھتا ہے یعنی اِس کو کھا کر انسان ہمیشہ ہمیشہ اِس جنت میں رہیگا اور پھر ممانعت کا فلسفہ یہ بیان کیا کہ مرضی ٔخدا وندی یہ ہے کہ آپ فرشتہ نہ ہوں اورآپ کا قیام اِس باغ میں دائمی نہ ہو۔ توریت کی تصریح کے بموجب وہ نیکی اور بدی کی پہچان کا درخت تھا ۔ ١ اب شیطان کی منطقی دلیل کا حاصل یہ ہوا کہ اِس درخت کاپھل کھاکر جب آپ نیکی اور بدی کی پہچان حاصل کر لیں گے توبدی سے محفوظ رہیں گے، نیکی ہی پر عامل رہیں توآپ ترقی کرتے کرتے تقرب اِلی اللہ کا بہت اُونچا مرتبہ حاصل کر لیں گے اور بدی کے باعث جو اِس جنت سے نکلنے کا خطرہ ہے اُس سے بھی آپ محفوظ ہوجائیں گے۔ ١ قرآن شریف یا صحیح اَحادیث میں اِس درخت کے متعلق کوئی تصریح نہیں آئی کہ کس چیز کاتھا ؟ علماء ِ مفسرین کے اقوال مختلف ہیں کہ وہ انگور، انجیر، گیہوں یا کھجور کا درخت تھا ۔ابو العالیہ کاقول ہے کہ وہ درخت ایسا تھا جس کے کھانے سے بول و براز کی حاجت ہوتی تھی۔ وہب بن عنسیہ فرماتے ہیں کہ وہ ایسادرخت ہے جس کو فرشتے کھاتے ہیں خلود اور ابدی زندگی کے لیے (تفسیر اِبن کثیر جلد ١ ص ١٣٥)۔ حضرت وہب بن منبہ کے اِرشاد کے بموجب گویا شیطان کا بیان بھی صحیح تھا مگر چونکہ حکمِ اِلٰہی کی مخالفت ہوئی اِس لیے حضرت آدم علیہ السلام معتوب ہوئے، مگر قرآنِ پاک کی دُوسری آیت جو اِسی مضمون میں ذکرکی گئی ہے اُس میں یہ بھی ہے کہ اِس درخت کے کھاتے ہی اُن کی شرمگاہیں ظاہر ہو نے لگیں، اِس سے بظاہر حضرت ابو العالیہ رحمة اللہ علیہ کا قول راسخ معلوم ہوتا ہے کہ وہ درخت تھاجس سے بول وبراز کی حاجت ہونے لگتی تھی۔