ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکفٰی وَسَلَام عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ ! میرے محترم بھائیو اور بزرگو ! مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں کچھ بیعت اور سلوک و طریقت کے متعلق عرض کروں آج کل کچھ لو گوں کا خیال ہے کہ یہ چیز شریعت کے خلاف ہے آقائے نامدار رسول اللہ ۖ نے اِس کی تعلیم نہیں دی ہے اور جو لوگ تصوف و طریقت کے ذمہ دار ہیں اُن کے اَفعال واَطوار حرکات و سکنات شریعت کے خلاف پائے جاتے ہیں اِس لیے شبہ ہوتا ہے کہ یہ چیز رسول اللہ ۖ کے طریقہ کے خلاف ہے حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ بیعت : ''بیعت ''نام ہے اِس کا کہ شریعت کی کسی بات کے لیے عہدلیا جائے کہ وہ اِس اَمرکو اللہ کے حکم سے انجام دیں گے یا کسی خاص دینی مسئلہ کا کہ وہ اُس پر عمل کریں گے جنابِ رسول اللہ ۖ نے بہت سے مواقع میں ایسا کیا ہے چنانچہ حدیبیہ کی لڑائی کے وقت جنابِ رسول اللہ ۖ نے عہد لیا تھاکہ اگر دشمنوں سے مقابلہ کی نوبت آئی تو وہ بھاگیں گے نہیں بلکہ جب تک زندہ رہیں گے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے اور موت آجائے تو اُس کو اِختیار کریں گے اور اِسلام کی سر بلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادیں گے اللہ تعالیٰ سورۂ فتح میں فرماتا ہے : ( لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا) (سُورة الفتح : ١٨ ) ''اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہو گیا جب وہ آپ سے در خت کے نیچے بیعت کررہے تھے پس اللہ کو معلوم تھا جو کچھ اُن کے دلوں میں تھا اوراُس وقت اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں اطمینان پیدا کر دیا اور اُن کو فتح قریب عطا فرمائی۔'' اِسی طرح سُورۂ مُمتحنة میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے بیعت لینے کے متعلق ذکر کیا ہے اِرشاد ِ ربانی ہے :