ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
جیسے قرآن کی تلاوت کا حکم دیاگیاہے تو زیرو زبر لگانا اور عکسی قرآن چھاپنا سب اِسی کے حکم میں ہے۔ تم کو حج کا حکم دیا گیاہے تو پہلے اُونٹوں سے سفر کرتے تھے تو اُس کی ضرورت ہوتی تھی اور آج جہازوں اور لاریوں پر سفر کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی بیوقوف کہے کہ یہ بدعت ہے میںتو ہندوستان سے اُونٹ پر سفر کروں گاتوکیاآپ کرسکتے ہیں اِسی طرح سے جدہ پہنچنے کے بعد لاریوں سے سفرہوتا ہے تو مقصود بیت اللہ کی حاضری ہے جس طرح سے ہو اُس کو انجام دیا جائے مقصد میں کوئی فرق نہیںآیا زمانہ کی ضرورت کی حیثیت سے فرق پڑ گیاہے۔ تو میرے بزرگو ! آج یہ کہنا کہ تصوف اور سلوک میں جو باتیں ہیں بدعت ہیں یہ غلط ہے، وہ مامور بہ ہیں اُن پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ اصل مقصد تصوف میں اِحسان ہے اُس کے حاصل کرنے کے جو طریقے خلافِ شریعت نہیں ہیں وہ سب ضروری ہیںالبتہ اگرکوئی شخص کہے کہ مجھ کو خدا تک پہنچنے کے لیے قوال ڈھول اور گانے والے کی ضرورت ہے تویہ خلافِ شریعت ہے جنابِ محمد رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام نے اِن چیزوں کی ممانعت کی ہے توجن چیزوں سے ممانعت کی گئی وہ سنت میں داخل نہیں ہیں۔ بیعت کے فوائد : بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ بیعت کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے یہ شبہ غلط ہے حضور ۖ نے بیعت کی اور قرآن و حدیث میں اِس کا ذکر موجود ہے۔ حضرت سیّد اَحمد شہید رحمة اللہ علیہ جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا وہ اپنی کتاب ''صراطِ مستقیم'' میں بیعت کے فائدے بتلاتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی بر گزیدہ بندے کے ہاتھ پر بیعت کرتاہے تو اُس کی قبولیت کی وجہ سے خدا کی رحمت اُس کی کفالت کرتی ہے اور اِس کے دو طریقے ہوتے ہیں : ایک طریقہ سے اُس کی عصمت کی حفاظت کی جاتی ہے اگر اُس کا مرشد بڑی عزت والا ہے تو اُس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ تیرا فلاں مرید فلاں خرابی میں مبتلا ہو رہاہے اُس کونکالا جائے تو مرشد اُس کو مناسب تد بیر سے اُس خرابی سے نکالتا ہے کبھی خود خداوند ِ کریم ہی اُس مرید کو خرابی سے بچاتا ہے کبھی فرشتہ کو حکم دیا جاتا ہے یا اور کسی ذریعہ سے اُس کی حفاظت کی جاتی ہے مثلاً مر شد کی صورت میں آکر فرشتہ اُسے بچاتا ہے جیسے حضرت یو سف علیہ السلام