ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
کے خلط ملط کی وجہ سے لوگ زیر و زبر کے محتاج ہوگئے۔ پس یہ اعتراض کہ قرآن میں زیر و زبر نہیں لگانا چاہیے کیونکہ یہ حضور کے زمانہ میں نہیں پائے گئے تو کیا یہ اعتراض کوئی وزن رکھتا ہے بیشک اُس زمانہ میں لوگ بغیر زیر و زبر کے تلاوت کر لیتے تھے مگر آج مکہ اور مدینہ والے جن کی زبان عربی ہے وہ بھی بغیر زیر و زبر و نقطہ کے نہیں پڑھ سکتے، جس طرح ہم محتاج ہیں صرف ونحو کے اِسی طرح عرب والے بھی محتاج ہیں اور وہ بھی بغیر زیر و زبر اور نقطہ کے نہیں پڑھ سکتے ہیں تو زمانہ کے بدلنے کی وجہ سے اَحوال بدلتے رہتے ہیں لیکن وہ اَحوال جو مقصودکوبدلنے والے نہ ہوں اُن کوسنت ہی کہا جائے گا مثلاً کسی شخص نے روٹی پکانے والے کومتعین کیا تواُس کے معنی یہ ہوں گے کہ لکڑی چولہا توا سب چیزیں مہیا کریں، لکڑی نہ ملے کوئلہ نہ ملے تواَوپلہ کوبھی استعمال کیا جائے گا غرض جس چیز پر روٹی پکانا موقف ہو اُسی کوطلب کیاجائے گا۔ مختصر یہ کہ رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں احسان حاصل کرنے لیے ریاضت کی ضرورت نہیں تھی مگر آج ہمارے مرشدوں نے بتلایا کہ اِس طرح سے ذکر کرو اگر کوئی کہے کہ یہ بدعت ہے تو سرا سر غلطی ہے۔ ذکر کی تاکید : خدا نے کئی جگہ ذکر کی تاکید فرمائی ہے اِرشاد ہے (وَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ )کھڑے اور بیٹھے کی کوئی قیدنہیں ہے اِسی طرح لفظ اللّٰہ، سُبْحَانَ اللّٰہ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ضرب کے ساتھ ہو یا بِلا ضرب ، اِرشادِ خدا وندی کے تحت میں سب داخل ہے۔ دُوسرے موقع پرقرآن شریف میں ہے ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا) تیسرا اِرشاد ہے ( فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ) اگرتم مجھ کو یاد کرو گے میں تم کو یاد کروں گا ۔ کوئی قید نہیں کہ کس طرح سے ذکر کیا جائے، مطلقاً ذکر کا حکم ہے ہمارے بڑے تجربہ کار لوگوں نے کہا ہے کہ ذکر ِسری سانس کے ساتھ اور ذکرِ خفی رُوح کے ساتھ کرو۔ بہرحال ذکر کوئی بد عت نہیں ہے جیسے حکم دیا تھاجہاد کرنے کا کہ دشمن کی طاقت کوکمزور کرنے کے لیے جہاد کرو چاہے تیرسے چاہے تلوار سے چاہے توپ یامشین گنوں سے جس طرح تم انجام دے سکو اور دشمن کو شکست دے سکو۔