ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
بیعت ِطریقت : بیعت اِس بات پر ہوتی ہے کہ شریعت کے حکموں کی تعمیل کریں گے اللہ کا ذکر کریں گے اور شریعت پر چلیں گے اِسی کو ''بیعت ِطریقت ''کہا جاتا ہے بیعت کے طریقے ہر زمانے میں جاری رہے ہیں اور اللہ کے خاص خاص بندوں نے مسلمانوں سے اِس سلسلہ میں عہد لیے ہیں۔ بیعت کون لے سکتا ہے ؟ بیعت کا ہر شخص کو حق نہیں، بیعت لینے کاحق اُسی کو ہے جو فسق و فجور سے بچتا رہا ہو اور کسی پیر کے پاس رہ کر کتاب و سنت کی روشنی میں تز کیۂ قلب حاصل کر چکا ہو اور اپنے مر شد سے نسبت ِباطنی حاصل کی ہو، ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ پر زمانہ سابق میں بیعت کی جاتی تھی تمام صحابہ کرام میں یہ اَوصاف پائے جاتے تھے مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خصوصاً یہ سلسلہ زیادہ چلا ہے حضرت علی کے بعد حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے۔ پیر یا شیخ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور اُن کے خلفاء رحہمہم اللہ سے جو بیعت لیتے ہیں اُن کو''پیر ''کہتے ہیں پیرکے معنی بڈھا کے ہیں اور عربی میں اِسے ''شیخ ''کہتے ہیں چونکہ عموماً وہ شخص جو زیادہ دنوں تک اللہ اور رسول کی اِطاعت میں وقت گزارتا ہے اور تجربہ حاصل کرتا ہے اور پھر اِشاعت و تبلیغ کاکام کرتا ہے بوڑھا ہوتا ہے اِسی لیے اُس کو'' پیر'' کہا جاتا ہے، پیر کسی شخص کا نام نہیں ہے کسی مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ جو شریعت کا پابند اور عرصۂ دراز تک ریاضت کیے ہوئے ہو وہ اللہ کی کثرت سے اِطاعت کرتا ہو اور دُنیا کا حریص نہ ہو اِس قدر عبادت کی ہو کہ اُس سے نسبت پیدا ہوگئی ہو وہی پیر ہوتا ہے مگر عرصۂ دراز گزرنے کے بعد جس طرح ہر جماعت میں کھرے کھوٹے ہوتے ہیں اِسی طرح طریقت کے اندر بھی کھرے کھوٹے پیدا ہوگئے۔ جو شخص شریعت پر نہ چلتا ہو اور نہ سنت کا تابعدار ہو وہ شخص بیعت لینے کا مستحق نہیں ہے، حکم ہواہے ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِ قِیْنَ