ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
کے یقین ِ محکم کو اطمینان و اِنشرح کے اُس نورِ درخشاں سے بھی منور کر دیا جو اُس عالی مرتبہ داعی ٔ حق کے لیے ضروری تھا جس کو توریت کے وہ اَلواح دیے جارہے تھے جن میں ہر قسم کی باتیں لکھ دی تھیں تاکہ (دین کے) ہر معاملے کے لیے اُس میں نصیحت ہو اور ہر بات اَلگ اَلگ واضح ہوجائے ۔(سورة الاعراف : ١٤٥) اِبتدائی اور درمیانی درجوں کے گزرنے کے بعد کمالِ اعلیٰ کی ضرورت تھی،یہ کمالِ اعلیٰ نیز آخری پیغام یعنی کتابِ مکمل اور وہ کلام جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے کس کو عنایت ہوتا، وہ اُسی کو دیا جاتا جس کا یقین سب سے زیادہ محکم ہوتا جس کو سب سے زیادہ شرحِ صدر حاصل ہوتا جس کے مشاہدات سب سے زیادہ وسیع اور سب سے اعلیٰ ہوتے جس کے جذبۂ شوق کو ( لَنْ تَرَانِیْ ) کی نامرادی نصیب نہ ہوتی بلکہ (دَنٰی فَتَدَلّٰی) اور(مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی) کی کامیابیاں بھی اُس کو حاصل ہونے والی ہوتیں۔ قدرت نے یہ مرتبہ ٔ بلند اُس کے لیے تجویز کر رکھا تھا جس کا وجود اِس کائنات کے خلق کا محرک اور جس کا ظہورِ مقدس اِس پورے نظامِ عالم کا آخری مقصد تھا لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ''اے محمد ۖ اگر تو نہ ہوتا تو عالمِ کون وہست کی صورت گری بھی نہ ہوتی۔'' معراج کا پُر اَسرار منظر اور تجلیات : اِس اکمل الانبیاء اور اکمل الرسل کے مشاہدات کی تفصیل سورہ والنجم کی اِبتدائی آیات میں بیان کی گئی ہے لفظی ترجمہ یہ ہے : ''قسم ہے تارے کی جب گرے (غروب ہو) بہکا نہیں تمہارا رفیق اور بے راہ نہیں چلا، نہیں بولتا اپنے دِل کی چاہ (خواہش) سے جو کچھ ہے وہ وحی ہے، جو اُس پر اُتاری جاتی ہے۔ سکھایا اُس کو سخت قوتوں والے نے، زور آور نے، پھر متمکن ہوا (قائم ہوا) وہ تھا اُفقِ اعلیٰ پر، پھر نزدیک ہوا پھر اور قریب ہوا (لٹک گیا) پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کا میانہ یا اِس سے بھی زیادہ نزدیک (دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ