ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
''شَدِیْدُ الْقُوٰی '' ''ذُوْ مِرَّةٍ '' کون ہے ؟ شاید خلجان ہو کہ سخت قوتوں والا زور آور یعنی ''شَدِیْدُ الْقُوٰی '' ''ذُوْ مِرَّةٍ ''حضرتِ حق جل مجدہ کی شان کے شیان نہیں ہے اِن ا لفاظ میں مادّیت کی بو آتی ہے لہٰذا حضرت جبرئیل اَمین علیہ السلام کے لیے تو برداشت ہو سکتے ہیں، خود قرآن شریف میں سورۂ تکویر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو(ذِیْ قُوَّةٍ ) فرمایا گیا ہے مگر حضرت جل مجدہ کی شان اعلیٰ واَرفع کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اِسی طرح (فَاسْتَوٰی) جس کا ترجمہ ہم نے کیا ہے متمکن ہوا قائم ہوا۔ اور حضرت شاہ عبد القادر رحمة اللہ علیہ نے اِس کا ترجمہ فرمایا ہے سیدھا بیٹھا، اِسی طرح یہ باتیں کہ پھر نزدیک ہوا پھر اور قریب ہوا پھر رہ گیا فرق دو کمانوں کا میانہ یا اِس سے بھی نزدیک (دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم) یعنی (دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی) جس کا ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر نے یہ فرمایا ہے ''پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیاپھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ یا اِس سے بھی نزدیک'' یہ تمام کیفیتیں حضرت جل مجدہ کی شان کے مناسب نہیں ہیں چنانچہ حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اِس کا ترجمہ یہ کیا ہے ''پھر وہ فرشتہ نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا، سو دوکمانوں کے برابر کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم۔'' جواب : بیشک یہ خلجان بجا اور بر محل ہے مگر ہم اِس مضمون میں پہلے ہی اِعتراف کر چکے ہیں اور اب پھر اِقرار کرتے ہیں کہ ہماری لُغت (اُردو ہو یا فارسی یا عربی یا کوئی اور زبان) بہت قاصر ہے۔ ہمارے علم قیاس خیال غرض جو کچھ ہمارے پاس ہے اُس کا دائرہ ہمارے محسوسات اور اپنے ماحول کے تعلقات سے آگے نہیں بڑھ سکتا لہٰذا ہمارے ذخیرہ ٔ لُغت میں صرف اُن ہی مادّیات کے لیے کچھ الفاظ ہیں اِس بناء پر وہ حقائق جو نہ عام محسوساتِ انسانی کی حدود میں داخل ہیں نہ ہمارے تصوراتِ تخیل کے احاطہ کے اندر ہیں ہمارے الفاظ اُن کو ٹھیک ٹھیک اَدا نہیں کرسکتے مگر چونکہ سمجھانا بہرحال اِن ہی الفاظ سے ہے تو یہی ناقص الفاظ اُن حقائق ِقدسیہ کے لیے مستعار لیے جاتے ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے اِس اِستفادہ کے لیے