ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
جواب : رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں جہاد کے لیے تلوار، تیرو کمان نیزہ وغیرہ کاتذکرہ آتا ہے اور بندوق، مشین گن، گولہ بارُود اور ہوائی جہاز کا کوئی تذکرہ نہیں آتا ہے، آج اگرمسلمانوں کو شرعی جہاد کی ضرورت پڑے توآپ یہ کہیں گے کہ جنگ تلوار سے کرنی چاہیے کیونکہ آنحضور ۖ جنگ فقط تلوار نیزہ تیر و کمان سے کرتے تھے مگر ہرگز آپ ایسا نہیں کر سکتے اور اگر آج ایسا کریں گے تودشمن آپ کو دُور ہی سے فنا کر دیں گے مشین گن اور توپوں وغیرہ سے اگر دشمن حملہ کرے تو ہم کوبھی وہی چیز اِختیار کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم فرمایا ہے (اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) جوتم سے قوت ہو سکے دشمنوں کے مقابلہ کے واسطے تیار کرو، مقصود جہاد سے'' اعلاء ِکلمة اللہ ''ہے جس چیز سے بھی ہو اور جس چیز کی ضرورت پڑے اُس کو استعمال کرو جس سے دشمن کو شکست دے سکو اُس کو مہیا کرو اور مقابلہ کرو، اِسی طرح جس زمانہ میں آقائے نامدار جنابِ محمد رسول اللہ ۖ زندہ تھے تواُس زمانہ میں تھوڑی ریاضت کی ضرورت پڑتی تھی اور اُسی سے کام ہوجاتا تھااور جتنے دن زیادہ گزرتے گئے ریاضتوں کی ضرورت زیادہ ہوتی گئی اِسی وجہ سے چلہ، بارہ تسبیح، ذکر جہری اور پاس اَنفاس وغیرہ قلب کی صفائی کے لیے متعین کیے گئے۔ دوسرا جواب : آقائے نامدار رسول اللہ ۖ کے زمانے میں قرآن شریف میں زیر و زبر نہیں تھے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرایا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تربیت دیا مگرزیر و زبر تب بھی نہیں لگائے گئے ،صحابہ کرام کی زبان عربی تھی وہ بغیر زیر زبر کے پڑھتے تھے جیسے کہ ہم اُردو زبان والے اُردو کے صفحے کے صفحے پڑھتے چلے جاتے ہیں آج کوئی بنگالی، برمی یااِنڈو نیشیا والے سے کہا جائے کہ اُردو کی صحیح عبارت پڑھو تووہ نہیں پڑھ سکتاہے جس طرح ہم زیر و زبر کے نہ ہوتے ہوئے صحیح پڑھتے ہیں اِسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاقرآن جس میں نہ زیر نہ زبر نہ نقطہ کچھ بھی نہیں تھا صحابہ کرام صحیح پڑھتے تھے مگر تھوڑے ہی زمانہ بعد اِس کی ضرورت محسوس ہوئی عجمیوں