ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
گلدستہ ٔ اَحادیث ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور ) تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کرنے سے قرآن کا فہم حاصل نہیں ہوتا : عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو اَنَّ النَّبِیَّ ۖ قَالَ لَمْ یَفْقَہْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِیْ اَقَلَّ مِنْ ثَلٰثٍ۔ ( ترمذی ٢/١٢٣ ، ابوداود ١/١٩٧، دارمی ١/٤١٨ ، مشکٰوة ص ١٩١) ''حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا (ختم کیا) اُس نے قرآن کو (اچھی طرح) نہیں سمجھا۔'' ف : مُلاعلی قاری رحمة اللہ علیہ علامہ طیبی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں تو قرآنِ کریم کے ظاہری معنٰی بھی سمجھ میں نہیں آسکتے چہ جائیکہ قرآنِ کریم کے حقائق و دقائق کا فہم، اِن کاحال تو یہ ہے کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت بلکہ ایک جملہ کے اَسرار و رموز سمجھنے کے لیے بھی بڑی بڑی عمریں ناکافی ہیں، نیز حدیث ِ پاک میں جو نفی ہے اِس سے مراد فہم کی نفی ہے ثواب کی نفی نہیں یعنی اِس کو ثواب تو بہرحال ملے گا، قرآن کو سمجھ کر پڑھے یا بغیر سمجھے۔ ( مرقاة ج ٥ ص١ ٨) علامہ طیبی یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ فہم اَشخاص و اَفہمام میں تفاوت کے لحاظ سے مختلف ہوتی رہتی ہے بعض لوگوں کی سمجھ بہت تیز اور پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق و دقائق سمجھ لیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لیے طویل عرصہ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حدیث ِ مذکور کے پیشِ نظر اَسلاف میں قرآنِ کریم کے ختم کرنے کی مدت میں اِختلاف ِ رائے ہوا ، ایک جماعت نے تو یہ فرمایا کہ چونکہ حدیث میں آگیا ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں قرآن فہمی حاصل نہیں ہوتی لہٰذا قرآنِ کریم کو کم از کم تین دن میں ختم کیا جائے