ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
جنابِ رسول اللہ ۖ کی صحبت کااَثر یہ تھاکہ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے تو ہر چیز روشن معلوم ہوتی تھی جب تک آپ رہے سب چیزیں روشن معلوم ہوتی رہیں وفات کے بعد جب ہم نے رسول اللہ ۖ کی قبر پر مٹی ڈالی تووہ روشنی جاتی رہی اور کہتے ہیں کہ ابھی ہم نے ہاتھوں سے مٹی نہیں جھاڑی تھی کہ خود ہمیں اپنے دل اوپرے معلوم ہونے لگے۔ آنحضرت ۖ رُوحانیت کے آفتاب تھے صحابۂ کرام نے اُن سے روشنی حاصل کی اِسی بناء پراہلِ سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو شخص اِسلام کے ساتھ چند منٹ بھی رسول اللہ ۖ کی بارگاہ میں رہا ہو وہ بعد کے آنے والے بڑے سے بڑے متقی اور ولی سے بھی افضل واعلیٰ ہے۔رسول اللہ ۖ کی رُوحانی طاقت بجلی سے بھی زیادہ طاقتور تھی دل و دماغ روشن کرنے والی اِس لیے ریاضت کی زیادہ حاجت نہ ہوتی تھی ضرورت اِس بات کی تھی کہ اِخلاص کے ساتھ مجلس میں حاضری ہوجائے مگر جیسا کہ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کی جدائی کے بعد وہ روشنی نہیں رہی اِسی طرح صحابہ کرام کے زمانہ سے جتنا زمانہ دُور ہوتا گیا رُوحانی اور قلبی صفائی میں کمی ہوتی گئی جس طرح صاف بر تن کے صاف کرنے سے میل جلد دُور ہوجاتا ہے عہدِ صحابہ کے صاف قلوب کو صاف کرنے کے لیے کسی خاص ریاضت کی ضرورت نہیں تھی مگر جیسے جیسے میل بڑھتا اور جمتا گیا ریاضت کی ضرورت زیادہ ہوتی گئی۔ احسان و تصوف : احسان کوئی چیز نہیں دل کی ہی صفائی حاصل کرنے کا نام'' احسان'' ہے اور یہی تصوف کا مقصد ہے تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے حدیث ِ جبرئیل میں جو چیز مذکور ہے وہی سچ ہے مگر زمانہ کے بُعد کی وجہ سے طبیعتوں میں میل زیادہ ہوگیا جس کی وجہ سے مانجنے کی ضرورت زیادہ ہوگئی۔ اعتراض : لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جو اُصول تصوف میں ذکر کیے گئے ہیں یعنی بارہ تسبیحیں، ذکر جہری، پاس اَنفاس، مراقبہ وغیرہ اِس کا بھی کسی حدیث میں ذکر نہیں ہے، اُن کا یہ اعتراض غلط ہے۔