ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
بعد ہے جبکہ گائوں والوں کے لیے کہ جس میںعید کی نماز نہیں ہوتی سورج طلوع ہونے کے بعد ہے۔ مسئلہ : گائوں والوں کے لیے دسویں تاریخ کوفجر کی نماز کے بعدبھی قربانی کرناجائز ہے۔ مسئلہ : اِمام عید کی نماز پڑھا چکا لیکن ابھی خطبہ نہیں پڑھا کہ کسی نے قربانی کردی تو قربانی جائز ہے۔ مسئلہ : اِمام کے نماز پڑھانے کے دوران قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔ مسئلہ : اِمام نے نماز پڑھائی پھر لوگوں نے قربانی کی اُس کے بعد پتہ چلا کہ اِمام کا وضو نہ تھا اور اِمام نے بِلا وضو عید کی نماز غلطی سے پڑھادی تھی تو قربانی ہوگئی اِعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ : اگر کسی عذر سے یا بِلا عذر پہلے دن یعنی دسویں کو عید کی نماز نہیں ہوئی تو سورج کے زوال سے پہلے قربانی جائز نہ ہوگی البتہ زوال کے بعد جائز ہوگی اور دُوسرے دن جب عید کی نماز پڑھی جائے تو نماز سے پہلے بھی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ : اگر عید کی نماز ہوئی اور پھر لوگوں نے قربانی کی، بعد میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ وہ دن دسویں کا نہیں نویں ذی الحجہ کا ہے اور چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی تھی تو اگر باقاعدہ گواہی سے چاند کے ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تو نماز اور قربانی دونوں جائز ہیں اِعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ : دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میںچاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا مکروہِ تنزیہی ہے شاید کوئی رگ نہ کٹے اور اندھیرے میں پتہ نہ چلے اور قربانی درست نہ ہو۔ مسئلہ : اگر کوئی شہر کا رہنے والا اپنی قربانی کا جانور کسی گائوں میں بھیج دے تو وہاں اُس کی قربانی عید کی نماز سے پہلے بھی درست ہے اگرچہ وہ خود شہرہی میں موجود ہو، ذبح ہو جانے کے بعد اُس کو منگوالے اور گوشت کھائے۔ قربانی کے جانور : مسئلہ : بکرا، بکری ، بھیڑ ،دُنبہ ،گائے، بیل ، بھینس ، بھینسا، اُونٹ، اُونٹنی اِن جانوروں کی