ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
جبرئیل علیہ السلام سے قرار دیا جائے تو کیا اِس سلسلہ کلام کی آخری آیت (فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہ مَا اَوْحٰی) (وحی نازل کی اپنے بندہ پر جو وحی نازل کی) کا تعلق بھی حضرت جبرئیل ہی سے ہوگا آنحضرت ۖ بندے کس کے ہیں وحی نازل کرنے والے کون ہیں ؟ اِس سے کسی کو بھی اِنکار نہیں ہے کہ اِس آیت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ پر جو چاہی وحی نازل کی جب اِس آیت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے تو سابق آیات اور اَوصاف کا تعلق بھی اللہ ہی سے ہوگا یعنی ماننا پڑے گا کہ جو خدا سکھانے والا ہے جو ذو القوة المتین ہے جو عرش پر متمکن ہے جس نے وحی نازل کی وہی ہے جس کا دیدار دیدہ چشم نے کیا جس کی تصدیق قلب نے کی جو اِس دیدار میں شریک ِ چشم تھا۔ حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر یہ معنی لیے جاتے کہ فرشتہ نزدیک آیا پھر اور قریب آیا یہاں تک کہ تقریبًا دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اور بھی کم ،تو اِس سے آنحضرت ۖ کا کمال نہیں ظاہر ہوتا کیونکہ آنحضرت ۖ کو حضرت جبرئیل علیہ السلام سے افضل تسلیم کیا گیا ہے خود آنحضرت کا اِرشاد ہے : وَزِیْرَایَ فِی السَّمَائِ جِبْرَئِیْلُ وَ مِیْکَائِیْلُ۔ آسمان میں میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں۔ ہاں ایک سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف میں ہے ( لاَ تُدْرِکْہُ الْاَبْصَارُ )''نگاہیں اُس کا اِدراک نہیں کر سکتیں'' تو حضرت حق جل مجدہ کی رؤیت کیسے ہوسکتی ہے ؟ مگر اِس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ اِدراک اور رؤیت( دیدار) میں فرق ہے۔ چاند سورج پر ہماری نظر پڑتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے چاند اور آفتاب دیکھا یعنی ہمیں چاند و آفتاب کی رؤیت ہوئی مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے چاند سورج کا اِدراک کر لیا کیونکہ اِدراک اُسی وقت بولا جاتا ہے جب پوری چیز پر نظر پڑ جائے اور اُس کی کچھ حقیقت بھی معلوم ہوجائے۔ اَلْاِدْرَاکُ : ھُوَ الْوُقُوْفُ عَلٰٰی کُنْہِ الشَّیْیئِ وَالْاِحَاطَةُ بِہ اَوِ الْوُصُوْلُ اِلَی الشَّیْیئِ بِحَیْثُ لَا یَفُوْتُ مِنْہُ الشَّیْیئُ۔ رؤیت اور اِدراک کا فرق اِس مثال سے سمجھایا جا سکتا ہے : بنو اِسرائیل رات کی اندھیری