ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
میں مصر سے روانہ ہوگئے فرعون کو جیسے ہی خبر پہنچی دن نکلتے ہیں فوج لے کر اِن کے تعاقب میں روانہ ہوگیا، دونوں جمعیتوں ١ نے جب ایک دُوسرے کو دیکھا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا (اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ ) ہم تو پکڑ لیے گئے، ایک دُوسرے کو دیکھنے کے لیے ''تَرٰای'' لا یا گیا ہے جو رؤیت سے ماخوذ ہے۔ اور جب بنو اِسرائیل کو احساس ہوا کہ ہم سب طرف سے گھر گئے ہیں تو اِس کے لیے '' مُدْرَکُوْنُ '' لا یا گیا ہے جو اِدراک سے ماخوذ ہے۔ '' مُدْرَکُوْنُ '' کا ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر صاحب نے کیا ہے : ہم تو پکڑ لیے گئے۔ پس اِدراک ایسے موقع پر بولا جائے گا جہاں احاطہ اور کشف ِ حقیقت کی شان ہو۔ اِس موقع پر یہ واضح کر دینا غیر مناسب نہ ہوگا کہ ''رؤیت'' کا اِطلاق ایسے موقع پر بھی ہوتا ہے جہاں'' اِدراک'' یعنی انکشافِ حقیقت کا مفہوم مقصود ہو،جہاں ''رؤیت'' سے اِنکار کیا گیا ہے وہاں رؤیت کا یہی مفہوم مراد ہے (جو اِدراک کا ایک درجہ ہے) مثلاً حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ خود آنحضرت ۖ سے'' رؤیت'' کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا نُوْر اَنّٰی اَرَاہُ نور ہے، میں اُس کو کہاں دیکھ سکتا ہوں ! جہاں تک ''نور'' کا تعلق ہے وہ نظر آنے کے قابل چیز ہے اِس کے لیے اَنّٰی اَرَاہُ نہیں کہا جا سکتا (میں اُس کو کہاں دیکھ سکتا ہوں) البتہ ''اِدراک'' کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے میں کہاں اِدراک کر سکتا ہوں۔ پس اِس اِرشاد گرامی میں اگرچہ بظاہر اِنکار ہے مگر اِس اِنکار میں اِقرار بھی ہے کیونکہ ظاہر ہے کچھ تو نظر آیا جب ہی تو اِرشاد ہوا '' نور '' مگر جہاں تک حقیقت ِنور کا تعلق ہے تو اِس کے اِدراک سے عقل سراسر قاصر، نظرو فکر معطل اور نگاہیں خیرہ ہیں۔ (کماقیل) دُور بینانِ بارگاہ اَلست جز ازیں پے نبردہ اَند کہ ہست ٢ ١ بنو اِسرائیل اور فرعونی لشکر ٢ بارگاہِ اَلست کے دُوربین لوگ اِس سے زیادہ خبر نہ پاسکے کہ (وہ ہے )۔