ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
|
شرط یہ ہوتی ہے کہ صاحب الشرع نے اِن الفاظ کو اِس مفہوم کے لیے استعمال کیا ہو، اللہ تعالیٰ کی شان میں باریٔ النسمة کا لفظ استعمال کیاگیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو مولد النسمة نہیں کہہ سکتے حالانکہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے (جان پیدا کرنے والا) عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کے لیے ضابطہ یہ ہے جو الفاظ حضرت حق مجدہ کے لیے استعمال کیے جائیں وہ زیادہ سے زیادہ با عظمت ہوں جن میں کسی نقص کا وہم بھی نہ ہوتا ہو۔ اِرشادِ ربانی ہے : ( وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِہ) ١ اب جو الفاظ اِن آیات میں استعمال کیے گئے ہیں وہ اگر محاورہ شریعت میں حضرت حق کے لیے اِستعمال کیے جاتے ہیں تو ہمیں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اِن الفاظ سے ذاتِ حق جل مجدہ یا اُس کا کوئی وصف مراد لیں۔ اِس اصول کے پیش ِ نظر ملاحظہ فرمائیے، سورة الذاریات میں اِرشاد ہواہے( اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ) یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے ''قوت والے'' کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ سورۂ طٰہٰ میں اِرشاد ہوا ہے (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) سورة الاعراف، سورۂ رعد، سورۂ فرقان وغیرہ میں اِرشاد ہوا ہے (ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ) یعنی اِستوی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف قرآنِ پاک کی متعدد آیتوں میں موجود ہے۔ مِرَّةٍ کے معنی ہیں قوت، مضبوطی (قاموس) ذُوْ مِرَّةٍ ۔ کَاَنَّہُ مُحْکَمُ الْفَتْلِ (المفردات فی غرائب القرآن) ذُوْ مِرَّةٍ کا لفظ اگرچہ قرآنِ حکیم میں اِسی مقام پر وارِد ہوا ہے لیکن اِسی مفہوم کو اَدا کرنے والا لفظ شَدِیْدُ الْبَطْشِ محاورات ِشریعت میں وارد ہے سورہ ٔبروج میں ہے (اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْد) البتہ یہ ظاہر ہے کہ الفاظ اگرچہ وہی ہیں مگر اُن کی کیفیت میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ خود ہماری محسوس اور دیکھی بھالی چیزوں میں لفظ ایک ہی ہوتا ہے مگر مختلف چیزوں کے لحاظ سے اُس کی ١ سُورة الاعراف : ١٨٠