ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2016 |
اكستان |
وحی کس نے بھیجی ؟ دیکھو یہ بارگاہِ عشق ہے، یہ دربارِ رب ذوالجلال ہے، جو کچھ کہو سوچ کر کہو، سمجھ کر کہو، اَدب شرط ہے۔ اَدب گاہ ہیست زیر آسماں اَز عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا ١ فضلائے اُمت اور اَکابر علماء رحمہم اللہ دم بخود ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باتیں بھی مختلف ہیں۔ حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عبد ِکامل (محمد ۖ) کو مقصودِ حقیقی کا دیدار ہوا یعنی اہلِ اِیمان تجرد کے جس اعلیٰ مقام پر قیامت کے بعد پہنچیں گے جب وہ ربِ حقیقی کا جلوہ اِس طرح دیکھیں گے جس طرح چودہویں رات کا چاند بے حجابانہ نظر آتا ہے، محبوب رب العالمین ۖ شب ِمعراج میں کچھ ایسے ہی درجہ پر تھے،ممکن ہے آپ کا درجہ اِس سے بھی بلند ہو، بس یہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے یہی حبیب ِ خدا ہیں رب ذو الجلال نے یہ کمال آپ کو عطا فرمایا ہے (ۖ)۔ جبرئیل اَمین (علیہ السلام) کو اِس طرح دیکھنا اُس محبوب رب العالمین (ۖ) کے لیے کمال نہیں ہے جس کے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ ع بعد اَز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ٢ اور ( مَارَأیٰ) سے پہلے (مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ )کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس دیدار کا شرف حاصل ہوا ہے وہ دیدارِ رب العالمین ہو۔دیکھنے والے کی آنکھ نے آفتاب ِنیم روز کو دیکھا اِس کے لیے دل کی تصدیق درکار نہیں ہے، آنکھ دیکھ رہی ہے، دل تابع ہے، دل نہیں مانتا تو ہٹ دھرم ہے کیونکہ آفتاب کو دیکھنا آنکھ ہی کا کام ہے لیکن وہ اُمور ِ قدسیہ جن کا تعلق حضرت جل مجدہ کی ذات و صفات سے ہو اُن کا روشندان قلب ہے، ربِّ اکبر کا تجلی گاہ قلب ِمومن ہی ہوتا ہے۔ یہاں آنکھ تابع ہے، شیطانی چمک دمک اور تجلیاتِ رحمانی میں فرق کرنا قلب ہی کا کام ہے لہٰذا (مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ )کی سند کی ضرورت اُسی وقت ہوتی ہے جب دیدۂ چشم نے نورِ حق کا نظارہ کیا ہو۔ ١ آسمان کے نیچے عرش سے بھی نازک تر ایسی اَدب گاہ ہے کہ جنید اور بایزید بھی اِس جگہ اپنا نفس گم کرکے آتے ہیں ٢ خدا کے بعد توہی بڑا ہے قصہ مختصر۔