ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
تر بیتِ اَولاد کس قدر ضروری ہے اِس کا اَندازہ آیتِ ذیل سے ہوتا ہے کہ جس میں ''عبادالرحمن'' (اللہ کے نیک بندوں) کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اللہ جل جلا لہ نے اِس دُعا کا بھی ذکر کیا ہے جووہ اپنے اہل و عیال کے لیے کرتے ہیں، گویا ''عبادالرحمن'' محض اپنی ذاتی کو ششوں پر اِعتماد نہیں کرتے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت اللہ جل جلا لہ کی طرف باطنی طور پر بھی متوجہ رہتے ہیں اور اِس سے بالخصوص اپنے اہل و عیال کی ظاہری اور با طنی اِصلاح کے طالب ہوتے ہیں چنانچہ اِرشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ( وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا) (سُورة الفرقان : ٧٤ ) ''اور جو (دُعا کرتے ہوئے) کہتے ہیں ہمارے پر ور دگار ! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پر ہیز گاروں کا سر براہ بنادے۔'' حضرت عِکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اِس آیت میں حسن و جمال مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ جل جلا لہ کے فر مانبردار ہو جائیں۔ حضرت حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے جب اِس آیت کی بابت در یافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بندہ اپنی بیوی بھائی اور دوست سے اللہ جل جلا لہ کی اِطاعت ہوتے دیکھے اور خدا کی قسم ! کوئی چیز بھی ایک مسلمان بندے کی آنکھوں کے لیے ایسی ٹھنڈک نہیں ہوسکتی بجز اِس کے کہ وہ اپنے بیٹے، پوتے اور دوست کو اللہ جل جلا لہ کافرما نبردار دیکھے ۔ ( تفسیر اِبن کثیر ج ٦ ص ١٣٢ ) اِسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی دُعا پر غور کیجیے کہ کیسے اپنے اہلِ خانہ کے لیے اللہ جل جلا لہ سے صلاح و خیر طلب کر رہے ہیں : ( وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ) (النمل : ١٩ )