ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
جیسی با توں پرمبنی تھے۔ اِس سروے سے حاصل شدہ اَعداد و شمار یہ ہیں : ٭ جوابدہ لو گوں میں سے ٥٠ فیصد کے بچوں کی عمر ٥ سے ٩ سال تھی جبکہ ٣٠ فیصد بچوں کی عمر ١٠ سے ١٢ سال تھی۔ ٭ ٨٠ فیصد لو گوں کاجواب یہ تھا کہ اُن کے بچے کم اَز کم ٢ گھنٹے اور ١٥ فیصد کا کہنا یہ ہے کہ اُن کے بچے ٣ گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ٭ ٩٠ فیصد والدین اپنے بچوں کوپُراَمن سمجھتے ہیں ۔ ٭ ٨٠ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ اُن کے بچے کار ٹون دیکھتے وقت اُس میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ٭ ١٠٠ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ اُن کے بچے پُر تشدد کارٹون دیکھ کر جارحانہ روّیہ اپناتے ہیں۔ ٭ ٧٥ فیصد والدین کاخیال یہ ہے کہ اُن کے بچے کار ٹون کر داروں کے اِستعمال کر دہ چیزوں اور ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں اُن کر داروں کا لیبل لگاہو۔ ٭ ٧٠ فیصد والدین کا کہنا یہ ہے کہ بچوں کو کا رٹون سے روکنے پراُن بچوں کو شدید غصہ آجاتا ہے۔ ٭ ١٠٠ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ اُن کے بچوں کو کا رٹون کے ذریعے کارپوریٹ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اِستعمال کیا جا رہا ہے۔ کارٹون دیکھنے کی بڑی خرابیاں یہ ہیں : (١) وقت کاضیاع : وقت کس قدر قیمتی چیز ہے اِس کا اَندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ کریم میں کئی