ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
ایک مقامات پر زمانے اور وقت کی قسم کھائی گئی ہے جیسے (وَالْعَصْرِ)(وَالْفَجْرِ) جبکہ ہم اِسی قدر اُس کے ساتھ بے وقعتی کا روّیہ اپناتے ہیں۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ٹی وی اورویڈیو کاکلچر بچوں پر بہت برا اَثر ڈالتا ہے نیز بچوں کی فطری ذہانت اورساد گی کو بھی زنگ لگاتا ہے، بعض گھرانوں میں ٹی وی مسلسل کھلا رہتاہے خواہ کوئی دیکھ رہاہویانہیں نیز ٹی وی کوبچوں کومشغول رکھنے یاوقت گزاری کاایک اچھا ذریعہ سمجھاجاتا ہے جبکہ اِس سے پڑنے والے برے اَثرات مندر جہ ذیل ہیں : ٭ بچے کاجو وقت دُوسروں کے سا تھ میل جول اورکھیل کود میں گزرنا چاہیے تھا جس سے بچے کاذہن در اصل تیز ہوتااور اُس کے ذہن کی نشوو نما ہوتی وہ وقت بچہ ویڈیو اسکرین کے سامنے گزار کر ضائع کردیتاہے اوروہ فائدہ حاصل نہیں کر پا تاجو لو گوں سے ملاقات اور چیزوں کوبراہِ راست برت کر حاصل کر سکتا تھا۔ ٭ بچے کاجو وقت اہم مہارتوں کے حصول کاتھا جس میں وہ زبانی اور تخلیقی، فنی اور سماجی صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرتا، اُس کا وہ وقت ٹی وی دیکھنے میں ضائع ہو جاتا ہے جبکہ بچے کی زندگی کے اِبتدائی دو سال اِن صلاحیتوں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ہم جہاں خود وقت کاصحیح اِستعمال نہیں کر تے وہیں بچوں کوبھی وقت ضائع کرنے کاعادی بناتے ہیں، بجائے اِس کے کہ ہم بچوں کی تربیت کی ذمہ داری خود سنبھالتے، اُنہیں اپنا قیمتی وقت دیتے، ہم اُنہیں ٹی وی کے آگے بٹھا کر کارٹون چینل لگاکراپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف یہ کہ دیگر بڑی خرابیوں کوجنم دیتا ہے بلکہ بذات ِ خود ضیاعِ وقت کے ضمن میں ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ (٢) پُر تشدد روّیہ : کار ٹون دیکھنے والے بچوں پرکی جانے والی نفسیاتی تحقیق سے تین اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں : ٭ ایسے بچے بے حس ہوجاتے ہیں اوراُنہیں دُوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر کوئی اِحساس