ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے در منثور میں اِس آیت کے بارے میں یوں مروی ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نا زل ہوئی جوباہر سے ایک گانے والی کنیز خرید کر لایا تھا اور جس کسی کے بارے میں سنتا کہ وہ اِسلام کااِرادہ رکھتاہے اُسے اپنی لو نڈی کے پاس لے کر آتا اور کہتا کہ اِسے کھلاؤ پلاؤ اور گانا سناؤ کہ یہ اُس سے بہتر ہے جومحمد تمہیں حکم دیتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو اور اپنی جان دو۔ ( درِ منثور ج ٦ ص ٥٠٤ دارُ الفکر، بیروت ) اِرشادِ نبوی ہے کہ : اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ رَضِی اللّٰہ عَنْہُ یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ یَقُوْلُ : اَلْغِنَائُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ۔ ( سنن ابی داود ج ٤ ص ٢٨٢ ) ''حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''گا نا'' دل میں نفاق پیدا کرتاہے۔'' (٥) عریانیت کا فروغ : دین اِسلام میں ستر و لباس کی اہمیت کوبہت اُجاگرکیا گیا ہے، مردوں اور عو رتوں کے لیے ''ستر ''کی الگ الگ حدود مقرر کی ہیں جس سے کم لباس زیب ِ تن کرناجائز نہیں ہے، اللہ جل جلا لہ کا فرمان ہے کہ : ( یٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا وَّلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْر ج ذٰلِکَ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ )(سُورة الاعراف : ٢٦ ) ''اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیاہے جو تمہارے جسم کے اُن حصوں کوچھپا سکے جن کاکھولنا بُرا ہے اور جو خوشنمائی کاذریعہ بھی ہے اور تقوی کا جو لباس ہے وہ سب سے بہتر ہے، یہ سب اللہ کی نشانیوں کاحصہ ہے جن کامقصد یہ ہے کہ لوگ سبق حاصل کریں۔'' جبکہ کار ٹون میں مؤنث کردار کوجولباس پہنا ہوا دکھایا جاتاہے وہ شرم و حیا سے نہایت ہی گرا