ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
چیز ہے میرے پاس بھی اُتنی ہی ہونی چاہیے اگر اِس جھگڑے میں پڑ گیا تو زندگی بھر یہ سلسلہ ختم نہ ہو گا ہمیشہ چلتا رہے گا اور (وہ حریص آدمی) ہر وقت پر یشان رہے گاتو قناعت کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیز اِنسان کو حاصل ہو اُس پر وہ خدا کا شکر اَدا کرتا رہے کہ اے اللہ تو نے مجھے بہت کچھ عنایت فرمایا ہے اور اگر اپنے حاصل شدہ مال پر شکر نہیں اَدا کرتا بلکہ زیادہ کو جی چاہتا ہے تو یہ حرص ہے مرض ہے بے صبری ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ حدیث شریف میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جوچیز طلب کرو وہ گِرکر نہ کرو، صرف اَسباب کے درجہ تک کوشش کرو مطلب یہ ہے کہ بے صبر نہ ہوکسی کے سامنے دست ِسوال پھیلا کر ذلیل نہ بنو نا جائز طریقے اِستعمال نہ کرو بے صبر ہو کر ہر طرف ہاتھ پاؤں نہ مارو۔ طلب میں خوبصورتی : ایک مقام پر اِرشاد فرمایا کہ اَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ وَتَوَکَّلُوْا عَلَیْہِ ١ (اَو کما قال علیہ السلام ) یعنی خوبصورتی سے طلب کرو اور خدا وند ِکریم پر بھروسہ کرو۔ خوبصورتی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وقار قائم رہے وہ طریقہ نہ اِختیار کرو جس سے ذلت ہو مثلاً کسی اَفسر کی سفارش کرنے سے کام چلتا ہے تو اُس سے کبھی کبھی ملنا اور بات ہے مگر ہر روز ملنا ہر روز جا کر خوشا مد کرنی اور ذلیل ہونا پسند نہیں۔ بس اَساب اِختیار کرو اور اَسباب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس سے ایک آدھ دفعہ مِل لیا جائے اَسباب کے درجے میں اِتنا کافی ہے، یہ پسند نہیں کہ اِتنا ملے کہ اُس کی نظر میں برا ہوجائے اور وقار نہ رہے۔ اِنسان چونکہ کمزور ہے لالچی ہے اُس میں قوتِ بر داشت بھی نہیں ہے، لالچ کا غلبہ ہوجا تا ہے حسد کا جذبہ ہو تو وہ چھا جاتاہے، اُس میں قوتِ مدافعت بھی کم ہے اور اُس رو میں ضرور بہہ جا تا ہے اِس لیے اِنسان کو آقائے نامدار ۖ نے سمجھا یا ہے کہ اِن چیزوں کا لحاظ رکھو یہ وہ چیزیں ہیں جو اِنسان میں فطری کمزوریوں کی وجہ سے پائی جاتی ہیں اگر اِنسان اپنے آپ کوکنٹرول نہ کرے تو یہ چیزیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ،اگر کنٹرول کرے تو رفتہ رفتہ کم بلکہ ختم ہوجاتی ہیں۔ ١ اَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ فَاِنَّ کُلًّا مُیَسَّر لِمَا خُلِقَ لَہ ( سنن ابن ماجہ کتاب التجارة رقم الحدیث ٢١٤٢ )