ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
وہ شخص اللہ تعالیٰ پراِیمان لے آیا ،اللہ تعالیٰ نے اُسے شفا دی۔ جب وہ با دشاہ کی مجلس میں آیا تواُس نے اپنے صحت مند ہونے کے بارے میں با دشاہ کو بتایا اور کہا کہ مجھے میرے رب اللہ نے شفادی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کیا میرے سوا بھی تیرا کوئی رب ہے ؟ اُس نے جواب دیا میرا اور تیرا رب تواللہ تعالیٰ ہے ۔با دشاہ نے اُسے جیل میں ڈال دیا اوراُسے سزا کا حکم کیا حتی کہ اُس نے لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ با دشاہ کے کا رِندوں نے اُس لڑکے کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ بادشاہ نے اُس سے کہا میرے پیارے بیٹے ! کیا تجھے فنِ جا دُو گری میں اِتنی مہارت حاصل ہوگئی ہے کہ تو لوگوں کو بیماریوں سے شفا دینے لگاہے ۔نو جوان نے جواب دیا کہ میں توکسی کو شفا نہیں دے سکتا بلکہ شفا دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ یہ جواب سن کر بادشاہ نے اُسے بھی قید کر دیا اوراُسے سزا دینے کاحکم دیا حتی کہ اُس نے راہب کے بارے میں بتا دیا کہ اُس نے اِسے راہ ِراست پر لگایا اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی تلقین کی۔ راہب کودربارمیں لایا گیا اور اُسے کہا گیا کہ اپنے دین کوچھوڑ کر بتوں کی پو جا شروع کردو، راہب نے اِس سے اِنکار کر دیا اور وہ اپنے دین پر مضبوطی سے جما رہا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اِس کا سراُڑا دیا جائے چنانچہ راہب اور با دشاہ کے مصاحب دو نوں کو قتل کر دیا گیا۔ اِس سب کے باوجود لڑکے کی ثابت قدمی میں ذرا سی لغزش نہ آئی بلکہ اُس کے اِیمان میں اور زیادہ اِضافہ ہوا۔ جب با دشاہ نے دیکھا کہ اِس کوڈرانے دھمکانے کاکوئی فائدہ نہیں تواُس نے اپنے اہلکاروں کوحکم دیا کہ اِسے پہاڑ کی چوٹی پرلے جاؤ اور نیچے گرادو، چنانچہ اہلکار اِسے پہاڑ پرلے گئے جب اِسے نیچے گرانے لگے تو اُس نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اے اللہ ! مجھے اِن کے شرسے بچا اور مجھے اپنے حفظ واَمان میں رکھ، ابھی وہ اِسے گرانہیں پائے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا اور تمام اہلکارنیچے گرگئے اَلبتہ وہ نو جوان پہاڑ سے نہیں گرا۔ اِس طرح یہ نوجوان بخیر و عافیت با دشاہ کے پاس واپس آگیا، با دشاہ نے جب اِسے دیکھا تو تعجب بھرے لہجے میں پوچھا میرے سپاہی کہاں ہیں ؟ تو نو جوان نے بڑے اِعتماد سے جواب