ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
اہمیت اِس طرح ذہن نشین کرائی جائے کہ جذبات ہم آہنگِ فرائض ہو جائیں یعنی فریضہ محض ڈیوٹی اور جبرًا قہرًا تعمیل ِ حکم نہ رہے بلکہ قلب ِمضطرب کا مطالبہ بن جائے۔ قرآنِ حکیم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جذبات میں اِنقلاب بر پا کرتاہے، وہ حکومت کو خطاب نہیں کرتا بلکہ عوام کومخاطَب بناتاہے، پہلے اُن کے فرائض معین کرتاہے پھر اُن فرائض کا اِحساس دلاتا ہے اور قانون سازی کے بجائے ذہن کی ساخت درست کرتا ہے کہ فرائض بارِ خاطر نہ رہیں بلکہ تقاضائے خاطر اور دلی جذبہ بن جائیں قرآنی تعلیمات کی پر داخت ١ یہ ہے کہ یہ قانون نہیں بلکہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ تمام اِنسان مساوی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : ''اے انسانو ! ہم نے تم کو پیدا کیا ایک مرد اور عورت سے اور تمہارے قبیلے اور خاندان اِس لیے کر دیے ہیں کہ آپس میں ایک دُوسرے کو پہچان سکو، (خا ندان اور نسل عزت کی بنیاد نہیں ہے) اللہ تعالیٰ کے یہاں اُس کی عزت سب سے زیادہ ہے جو اَعلیٰ اَخلاق و کر دار اور خدا ترسی (تقویٰ) میں سب سے زیادہ ہو۔ ٢ نیز اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : ''کسی قوم کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی دُوسری قوم کامذاق بنائے اُس کوحقیر سمجھے بہت ممکن ہے جس کو حقیر سمجھ رہے ہو وہ تم سے بہتر ہو۔'' (سورۂ حجرات : ١١) آنحضرت ۖ کی تعلیم ہے کہ : (١) تمام اِنسان کنگھی کے دندانوں کی طرح ہیں اَلنَّاسُ کَاَسْنَانِ الْمُشْطِ۔ ٣ (٢) غریبوں کا پیٹ بھرنا اُن کی فاقہ مستی دُور کرنا قانون نہیں بلکہ خود تمہارا شخصی اور ذاتی فرض ہے، قیامت کے دن جب ایک گروہ کو دوزخ کی طرف دھکیلا جائے گا اور اُن سے در یافت کیا جائے گا کہ تم کو دو زخ میں کس بات نے داخل کیا تو وہ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے اور نہ غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ (سورۂ مد ثر : ٤٢، ٤٣، ٤٤) ١ نکھار و سنوار ٢ سورۂ حجرات : ١٣ ٣ شفاء قاضی عیاض