ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2016 |
اكستان |
|
کرنے والوں کی آنکھ میں دھول جھونک دیں، مو قع ملتا ہے تو نو جوانوں کوکسی طرح مشتعل کر کے اُن سے تخریبی کا ر وائیاں کرالیتے ہیں جن سے ملک تباہ ہوتا ہے رات دن کے ہنگامے فاقہ مست قوم کو اِطمینان اور اَمن سے بھی محروم کر دیتے ہیں فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ٹیکس اَدا کرنے والے دولتمند طبقہ کے جذبہ ٔ اِنتقام کو کچھ سکون مل جاتا ہے ۔ ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت کوعملہ رکھنا پڑتا ہے ایمر جنسی قانون بنانا پڑتا ہے اُس کو نافذ کرنے لیے پو لیس، زائد پو لیس اور کبھی فوج کی ضرورت ہو تی ہے بعض اَوقات فو جی اور دیوانی مقدمات کے بے پناہ مصارف بھی بر داشت کرنے پڑتے ہیں یعنی وصول کردہ ٹیکس کا بڑاحصہ وصول کرنے میں خرچ ہو جاتا ہے، اگرغذائی بحران یا کسی دُشمن کا خطرہ نہ ہو اور پُرسکون حالات میں حکومت کوئی قانون اِس لیے منظور کرے کہ عوام کی غربت دُور ہو اور اُس کی پست سطح بلند ہواور اِس مقصد کے لیے وہ کوئی ٹیکس لگائے یا ٹیکسوں میں اِضافہ کرے تو ٹیکس اَدا کرنے والے اِس کو ظلمِ عظیم سمجھیں گے اور ممکن ہو گا تو بغاوت کر بیٹھیںگے اور اِتنی بغاوت تووہ اپنا قا نونی حق سمجھیں گے کہ اِنتخاب کے موقع پر اِس جماعت کو ووٹ نہ دیں جو اِقتصادی مسا وات ( اور موجودہ اِصطلاحات کی زبان میں سو شلزم) کی بنیاد ڈال رہی ہے۔ ایک سمجھدار تعلیم یافتہ اِنسانی ہمدر دی کا دعوی کرنے والا طبقہ اِن ٹیکسوں کو ظلم اور جبری تا وان کیوں سمجھتا ہے اور ملک کے اَمن کو تباہ کرنے پرکیوں آمادہ ہو جاتا ہے ؟ اِس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہم قانون کے ذریعہ اِنقلاب بر پا کرنا چاہتے ہیں جس اِنقلاب کا مدار صرف قانون پر ہوگا وہ لامحالہ جبروقہر ہوگا وہ حکم اور تعمیل ِحکم کاایک سلسلہ ہوگا جس کے ہر قدم پر اَشک آور گیس، گن، مشین گن اور ہتھکڑیوں اور بیٹریوں کی ضرورت ہو گی، کوئی قوم اِس طرح کے اِنقلاب پر فخر نہیں کرسکتی، قابلِ قدر وہ اِنقلاب ہے جو خود قوم کے اَندر پیدا ہو یعنی جذ بات بد لیں تصورات میں تبدیلی ہو اِنسانی ہمدر دی کانعرہ صرف فیشن نہ رہے بلکہ زندہ اور بیدار دلوں کاجذبہ بن جائے، اِس حقیقی اور اِصلاحی اِنقلاب کے لیے سب سے پہلے تعلیم اور ذہنی تربیت کی ضرورت ہے یعنی پہلے فرائض متعین کیے جائیں پھر اُن فرائض کی