ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
اور اُس کے قصاص کی اَدائیگی کے لیے قتل کیے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کے لیے۔اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر بھلا کیسے اِس اَمر کو بھلا پاتے، اُنہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں الصلاةُ جامعة کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کے لیے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لیے جمع ہو چکا ہے۔ اَبو ذر بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کدھر ہے وہ آدمی ؟ سیّدنا عمر سوال کرتے ہیں۔ مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا اَمیر المومنین ! اَبوذر مختصر جواب دیتے ہیں اَبوذر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دِکھائی دے رہا ہے محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ اَبوذر سیّدنا عمر کے دل میں بستے ہیں عمر سے اُن کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر دیر نہ کریں کاٹ کر اَبوذر کے حوالے کر دیں لیکن اِدھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے اَحکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے حالات و واقعات میںمطابقت نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آرہی ہے۔ مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمر کے منہ سے '' اللہ اکبر '' کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی ''اللہ اکبر ''کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے عمر اُس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کرلینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا !