ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
خود سیّدنا عمر سر جھکائے اَفسردہ بیٹھے ہیں،اِس صورتِ حال پر سر اُٹھا کر اِلتجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اِس شخص کو ! نہیں اَمیر المومنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اُس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں۔ عمر ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ! ہے کوئی تم میں سے جو اِس کی ضمانت دے ؟ اَبو ذر غفاری اپنے زُہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اِس شخص کی ! ! سیّدنا عمر کہتے ہیں اَبوذر ! اِس نے قتل کیا ہے۔ چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، اَبوذر اپنا اَٹل فیصلہ سناتے ہیں۔ عمر : جانتے ہو اِسے ؟ اَبوذر : نہیں جانتا اِسے۔ عمر : تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟ اَبوذر : میں نے اِس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، اِنشا اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔ عمر : اَبوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔ اَمیر المومنین پھر اللہ مالک ہے ! اَبوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں سیّدنا عمر سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لیے، بیوی بچوں کو اِلوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لیے کوئی راہ دیکھنے