ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کوئی کہہ بھی دیتا تو اُن بے گانگانِ صدق و صفاء پر اِس کا اَثر کیا ہو سکتا تھا کہ رحمةللعالمین ۖ کی طرف غلط بات منسوب کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ہے، بہت ہی پیچیدہ اور بہت ہی نازک صورتِ حال یہ تھی کہ جب یہ لوگ زُہدو تقوی عبادت گزاری اور قرآن خوانی کے پورے مظاہرہ کے ساتھ پرہیز گاروں اور پاکبازوں کی شکل بنا کر کہتے ہیں قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَذَا (آنحضرت ۖ نے یہ فرمایا) تو بجز اُن کے جو اُن کی سازشوںسے واقف تھے اور بھگت رہے تھے عام مسلمانوں کے لیے کب ممکن تھا کہ اُن کی بات کو غلط گردانیں۔ اِس جماعت کا زوال : کلمۂ خبیثہ اور دعوتِ باطل کی مثال اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں یہ دی ہے۔ (کَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَھَا مِنْ قَرَارٍ) ( ابراہیم : ٢٦) ''جیسے گندہ درخت اُکھاڑ دیا گیا زمین کے اُوپر سے ہی (اُس کی جڑ اُوپر ہی رکھی تھی، جڑ سے اُکھاڑ نے کے لیے زمین کھودنی نہیں پڑی) ، نہیں اِس کو ٹھہراؤ۔'' یہ حق کی نمائش کرنے والی باطل پرست جماعت نہ صرف اہلِ حق بلکہ خود حق و صداقت کے لیے خطرہ عظیم تھی، منافقوں کا نفاق گناہِ عظیم تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ اُن کے حصہ میں آیا لیکن اُن کے نفاق میں جارحیت نہیں تھی، اُنہوں نے اہلِ اِیمان کے قتل کو اپنا نصب العین نہیں بنایا تھا مگر اِس جماعت کی خصوصیت یہ تھی یَقْتُلُوْنَ اَہْلَ الْاِسْلَامِ ١ اہلِ اِسلام کو قتل کریں گے۔ تاریخ ایسے لرزہ خیز واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ اِن بد بختوں نے بِلاوجہ نیک بخت مومن کو قتل کیا اور اُس کو جہادِ عظیم سمجھا، اِبن ملجم وغیرہ ٢ اِسی جماعت کے سُور ماتھے جنہوں نے حرم مکہ معظمہ ٣ میں بیٹھ کر ہر سہ عمائدین یعنی سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ١ بخاری شریف کتاب الانبیاء رقم الحدیث ٣٣٤٤ ٢ حضرت علی کا قاتل عبدالرحمن بن ملجم مراوی، البرک بن عبداللّٰہ التیمی وعمر بن بکیر ا لتیمی ٣ تاریخ الخلفاء ص ١٢٣