ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
چالیس سے پچاس فیصد کی کمی آجاتی ہے مگر اِس سسٹم کو سمجھنے کے لیے پورے اِسلام کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔''(ماہنامہ ندائے شاہی جنوری٢٠٠٣ئ) اور ابھی چند روز قبل وزیر اعظم ہندمسٹر من موہن سنگھ نے بھی ہندوستان میں اِسلامی بینکاری کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا اِعلان کیا ہے جو بجائے خود ایک بین الاقوامی ماہر معاشیات کی طرف سے اِسلامی نظام ِمعیشت کے اِعتراف کی تازہ مثال ہے۔ غیر سودی سرمایہ کاری کی بنیادی شرط اور اِجمالی طریقہ کار : غیر سودی سرمایہ کاری میں ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اِس کا رابطہ سودی نظام سے نہ ہو اور اِس کے لیے لازم ہوگا کہ ایسا غیرسودی مالیاتی اِدارہ براہِ راست کاروبار کرنے یاکسی کاروبار میں نفع نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لگانے کا اہل ہو، اور ہماری معلومات کے مطابق سردست ہندوستان کے بینکنگ قوانین کے اِعتبار سے کسی بینک کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے اِس لیے فی الحال یہاں اِسلامی خطوط پر تجارتی بینکاری نظام کا قیام ناممکن ہے، تاہم اگر آئندہ کبھی قانونی اور عملی رُکاوٹیں دُور ہوجائیں تو یہ اِدارہ درجِ ذیل صورتوں میں بہ آسانی سرمایہ لگاکر نفع حاصل کرسکتا ہے۔ (١) مرابحۂ مؤجلہ : یعنی مثلاً کسی شخص کو کوئی مشینری خریدنے کی ضرورت ہے اور وہ غیر سودی بینک کے پاس جاتا ہے تو یہ بینک اُسے قرض دینے کے بجائے مطلوبہ شے کمپنی سے خریدکر نفع کے ساتھ اُسی شخص کے ہاتھ اُدھار بیچ دے اور قسطیں متعین کردے تو اِس طرح بینک کو کاروباری نفع بھی حاصل ہوگا اور ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔ (٢) اجارہ : دُوسری شکل یہ ہے کہ بینک طالب کو اُس کی ضرورت کی چیز خریدکر دیدے اور اُس سے ماہ بماہ اُس کا مناسب کرایہ وصول کیا کرے اور جب کرایہ مع نفع کے حاصل ہوجائے تو وہ چیز طالب کے نام کردے۔