ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
اَمیر المومنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے بات اُس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان، میں قتل کر دیے جانے کے لیے حاضر ہوں، مجھے بس یہ ڈر تھا کہ '' کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اَب لوگوں میں سے ''وعدوں کا ایفا'' ہی اُٹھ گیا ہے '' سیّدنا عمر نے اَبوذر کی طرف رُخ کر کے پوچھا اَبوذر تم نے کس بنا پر اِس کی ضمانت دے دی تھی ؟ اَبوذر نے کہا، اے عمر مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ '' کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے'' خیر'' ہی اُٹھا لی گئی ہے '' سیّدنا عمر نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا اور پھر اُن دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب ؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے اَمیر المومنین، ہم اِس کی صداقت کی وجہ سے اِسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اِس بات کا ڈر ہے کہ '' کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے ''عفو اور درگزر'' ہی اُٹھا لیا گیا ہے '' سیّدنا عمر ''اللہ اکبر ''پکار اُٹھے اور آنسو اُن کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔ اے نوجوانو ! تمہاری ''عفو و درگزر'' پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ اے اَبو ذر ! اللہ تجھے اِس شخص کی مصیبت میں ''مدد'' پر جزائے خیر دے۔ اور اے شخص، اللہ تجھے اِس ''وفائے عہد و صداقت'' پر جزائے خیر دے۔ اور اے اَمیر المومنین، اللہ تجھے تیرے ''عدل و رحمدلی ''پر جزائے خیر دے۔ محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اِسلام اور اِیمان کی سعادتیں تو عمر کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔''