ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
تحیة الوضو کی دو رکعتوں کی فضیلت : عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامرٍ قَالَ کَانَتْ عَلَیْنَا رِعَایَةُ الْاِبِلِ فَجَائَ تْ نَوْ بَتِیْ فَرَوَّ حْتُھَا بِعَشِیٍّ فَاَدْرَکْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا یُحَدِّثُ النَّاسَ فَاَدْرَکْتُ مِنْ قَوْلِہ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ وُضُوْئَ ہ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ مُقْبِل عَلَیْھِمَا بِقَلْبِہ وََوَجْہِہ اِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ۔ ١ الحدیث ''حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرتے ہیں کہ ہمارے ذمہ اُونٹوں کے چرانے کی ذمہ داری تھی، میں نے اپنی باری کے دن اُونٹوںکو چرا کر شام کو اُنہیں باڑے میں چھوڑا اور نبی کریم ۖ کی خدمت میں آ گیا میں پہنچا تو آپ کھڑے ہوئے لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے، میں جو آپ کی بات سن سکا وہ یہ تھی کہ آپ نے فرمایا: جو مسلمان وضو کرتا ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نفل پڑھتا ہے جن میں اپنے دل اور چہرے سے متوجہ رہتا ہے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔'' ف : مسلم شریف میں یہ حدیث ذرا تفصیل سے ذکر کی گئی ہے مفہوم اِس کا یہ ہے کہ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ باری باری اُونٹ چرایا کرتے تھے، ایک دن میں اُونٹ لے کر جاتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ۖ کی مجلس میں حاضر رہتے تھے اور جو باتیں وہ سنتے تھے رات کو مجھے بتا دیتے تھے، دُوسرے دن وہ اُونٹ لے کر جاتے تھے اور میں حاضر رہتا تھا اور دن بھر کی باتیں اُن کو بتا دیتا تھا، ایک دن اُونٹ چرانے کی میری باری تھی مجھے اُس دن اچھے پتے مِل گئے اُونٹوں کا پیٹ جلدی بھر گیا اور میں دوپہر ڈھلتے ہی اُونٹ لے کر واپس آگیا، عصر کے بعد کا وقت تھا میں اُونٹ باندھ کر مسجد نبوی شریف میں پہنچا وہاں نبی کریم ۖ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے میں مجلس کے آخر میں بیٹھ گیا، جس وقت میں پہنچا ہوں نبی کریم ۖ فرما ١ مسلم ج:١، ص:١٢٢، باب فضل الوضوء والصلوٰة عقبہ، مشکٰوة شریف رقم الحدیث ٢٨٨