ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
سرِ عام جوا کھیلتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بات اگر بیان بھی کی جائے یہ غیبت نہیں ہوتی اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے گناہ تو ہوجاتے ہیں مگر وہ اپنے گناہوں پر نادِم و شرمسار ہوتے ہیں، وہ اپنی برائیوں کو چھپانا چاہتے ہیں، ایسے آدمی کا عیب اگر معلوم ہوجائے تو حکم ہے کہ اُسے ظاہر نہ کرو، اُس کو بیشک سمجھاؤ، نصیحت کر لو مگر دُوسروں کو ہر گز نہ بتاؤ کیونکہ اپنی برائیوں کا اِظہار اُنہیں پسند نہیں، اِظہار و تشہیر سے اُنہیں دُکھ ہوگا غیرت مٹے گی بلکہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ عیب ظاہر ہوجانے کے بعد شرم کے مارے خود کُشی کر لیتے ہیں اِس لیے ایسے لوگوں کے عیب کو چھپانا ایسی نیکی ہے جیسے اُن کو زندگی بخش دی، مؤخر الذکر دونوں قسم کے آدمیوں کی برائیاں ظاہر کرنا غیبت کہلاتی ہیں جو ایک سنگین جرم ہے ۔ جہنم سے آزادی : حدیث شریف میں آیا ہے کسی کی غیبت نہ کرو اور اگر کسی کو کرتے دیکھو تو اُس کو بھی روک دو اور فرمایا جو غیبت سے روکتا ہے اللہ کے ذمے ہے کہ اُسے آگ سے آزاد فرمادے کَانَ حَقًا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یَّعْتِقَہ مِنَ النَّارِ۔ ١ اپنے عیوب بھی ظاہر نہ کرے : شریعت ِ مطہرہ نے جس طرح غیروں کی برائیوں کے اِظہار و تشریح سے روکا ہے اِسی طرح اپنی غلطیوں اور برائیوں کی تشہیر سے بھی منع فرمایا ہے تاکہ برائی نہ پھیلے، نہ کانوں میں بات پڑے نہ دِل میں اُترے، حدیث شریف میں ہے کہ اپنے اَندر کی خرابی بھی ظاہر نہ کرنی چاہیے کیونکہ جب خداتعالیٰ نے تمہارے پردے کو رکھا ہے توتم کیوں کفرانِ نعمت کرتے ہو یعنی اللہ نے تو اِحسان کیا ہے کہ تمہارے گناہوں کو چھپایا ہے ،تم کیوں ظاہر کرتے ہو کیوں کفرانِ نعمت کے مرتکب بنتے ہو۔ اِس لیے جب حضور ۖ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تمہیں بتاؤں کہ تم میں کون برا اور کون اچھا ہے تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور کسی نے بھی شرم کے مارے دریافت نہ کیا۔ ١ مشکوة شریف کتاب الاداب رقم الحدیث ٤٩٨١