ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
(٢) اِس کے برخلاف زیادہ تر علماء ومفتیان کی رائے یہ ہے کہ شیئر ز کا کاروبار شرعًا شرکت اور مضاربت کے دائرے میں آتا ہے اور اِس میں جواز کی چار شرطیں ہیں : (i) کمپنی کا اَصل کاروبار حلال ہو۔ (ii) اُس کمپنی کے کچھ منجمد اَثاثے وجود میں آچکے ہوں یعنی رقم صرف نقد کی شکل میں نہ ہو۔ (iii) اگر کمیٹی سودی لین دین کرتی ہو تو شیئرز ہولڈروں کو اُس کی سالانہ میٹنگ میں اِس پر اِعتراض کرنے کا حق حاصل ہو۔ (iv) جب منافع کی تقسیم ہو تو جتنا حصہ نفع سودی ڈیپازٹ سے حاصل ہونے کا یقین یا گمان غالب ہو اُتنا حصہ صدقہ کردیا جائے (دیکھئے: فقہی مقالات اَزمولانا محمد تقی صاحب عثمانی ص١٥١، کتاب الفتاویٰ مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی ٥/٢٩ـ ٣٠ وغیرہ) تاہم شیئرز کا مسئلہ ابھی تک علماء ومفتیان کے درمیان زیر بحث ہے اور اسٹاک ایکسچینج یا اِنٹرنیٹ پر بیٹھے بیٹھے شیئرز کی خرید وفروخت کا سلسلہ زیادہ تر مشتبہ صورتوں پر مشتمل ہوتا ہے اِس لیے جب تک پوری تحقیق اور اِطمینان نہ کرلیاجائے اُس کاروبار میں حصہ لینے کی حوصلہ اَفزائی پر جرأت نہیں کی جاسکتی اِس لیے جو حضرات گہرائی سے شیئرز مارکیٹ کے نشیب وفراز اور اصلیت سے واقف ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ چھان بین کرکے ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کریں جن کے شیئرز حرام اور مشتبہ صورتوں سے خالی ہوں تاکہ ناواقف لوگ اُس کے روشنی میں اِقدام کرسکیں۔ غیر سودی سرمایہ کاری : اِسلام نے اپنی معیشت کا مدار غیر سودی نظام پر رکھا ہے اگر صدق ِدل اور مکمل شرحِ صدر کے ساتھ اِس نظام کو دُنیا میں قائم کیا جائے تو ہر اِعتبار سے ٹھوس اور مستحکم معاشی ترقیات حاصل ہوسکتی ہیں، یہ نظام پوری طرح مروجہ بینکوں کی جگہ لینے کا اہل ہے اور اِس کے ذریعہ معاشرہ کے ہر طبقہ کو مالی اِنتفاع کے مواقع بہ آسانی حاصل ہوسکتے ہیں چنانچہ بعض اِسلامی ممالک میں اِس طرح کی سرمایہ کاری کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے اور اُس کے شاندار نتائج دیکھ کر بعض بین الاقوامی بینک ضمنی طور پر ہی سہی