ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
متعلق وہ اپنی تحریروں میں غلط اِطلاعات دیتے تھے مثلاً کسی مقام پر کوئی مقدمہ ہوا نہ کوئی فیصلہ (مگر)دُوسری جگہ ظالمانہ فیصلہ کی اِطلاع دے کر اپنے یہاں کے حاکم کو بدنام کردیا یہ اُن کا ایک طے شدہ پرو گرام تھا، اِسی طرح وہ حضراتِ صحابہ کے نام سے خطوط لکھ کر لوگوں میں ہیجان پیدا کرتے تھے۔ جب یہ گمراہ اور باطل فرقے رُونما ہو کر طلاطم بر پا کر چکے تھے حتی کہ سبائی فرقہ قتل ِ عثمان کے منصوبہ میں کامیاب بھی ہو چکا تھا توکیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ حضراتِ صحابہ کے متعلق کوئی روایت صرف اِسی صورت تسلیم کی جائے گی کہ وہ قرآنِ پاک کی تصریحات کے خلاف نہ ہو،اُصولِ فقہ کا عام ضابطہ ہے کہ ایسی کوئی روایت قابلِ اعتماد نہیں ہوتی جوقرآنِ پاک کی آیات یا سنت ِمشہورہ کے خلاف ہو۔ قرآنِ پاک کی آیات صحابہ کرام کو ''راشد'' اور ایساپاکباز قرار دیتی ہیں جنہیں کفر، فسق اور عصیاں سے گہری نفرت ہے جن کے دِلوں میں اِیمان سجاہواہے، تو لا محالہ ایسی تمام روایتیں ناقابلِ تسلیم ہوں گی بلکہ اُن کی تردید اور تغلیط لازم اور واجب ہوگی جن سے دامن ِ صحابہ داغدار ہو۔ اگر وہ روایت بظاہر صحیح سند سے بھی ہوتب بھی وہ اِس ''علت ِخفیہ'' کی وجہ سے'' سقیم '' ہوگی۔ دین ِ متین کی حفاظت واِستقامت : کلمہ ٔطیبہ اور دعوتِ حق کی مثال کلامِ اِلٰہی نے یہ دی ہے : (کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُھَا ثَابِت وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا) (سُورۂ ابراہیم : ٢٤ ، ٢٥ ) ''جیسے پاکیزہ اور ستھرا درخت اُس کی جڑ مضبوط (زمین کی تہ میں اُس کی پیلیں پھیلی ہوئیں )اور اُس کی شاخ فلک بوس (آسمان تک پہنچی ہوئی) لاتا ہے اپنا پھل ہر وقت اپنے رب کے حکم سے۔'' آنحضرت ۖ کا مشہور اِرشاد ہے : لَا یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّة قَائِمَة بِاَمْرِاللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَأْتِِیَہُمْ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ عَلٰی ذَالِکَ۔ ( بخاری شریف رقم الحدیث ٣٦٤١ )