ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
فائدہ : ایک اور حدیث میں اِرشاد ہے کہ حج میں جلدی کرو کسی کو بعد کی کیا خبر ہے کہ کوئی مرض پیش آجائے یا کوئی اورضرورت درمیان میں لاحق ہو جائے ۔ایک اورحدیث میں ہے کہ حج نکاح سے مقدم ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ جس کو حج کرنا ہے جلدی کرنا چاہیے کبھی آدمی بیمار ہو جاتا ہے، کبھی سواری کا اِنتظام نہیں رہتا، کبھی اور کوئی ضرورت لا حق ہو جاتی ہے ۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ حج کرنے میں جلدی کرو نہ معلوم کیا عذر پیش آجائے ۔(کنزالعمال ) اِن اَحادیث کی بناء پر ائمہ میں سے ایک بڑی جماعت کی تحقیق یہ ہے کہ جب کسی شخص پر حج فرض ہوجائے تو اُس کو فورًا اَداکرناواجب ہے تاخیر کرنے سے گنہگار ہوتا ہے ۔(فضائل حج ملخص) کیا حج بڑھاپے میں کرنے کا کام ہے ؟ بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ حج بڑھاپے کی عمر میں کرنے کاکام ہے لہٰذا جوانی میں یا جب تک عمرکا ایک بڑا حصہ نہ گزر جائے اُس وقت تک حج کرنے کی ضرورت نہیں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ حج کا عمر کے کسی خاص حصہ سے تعلق نہیں ہے بلکہ اِس کا تعلق حج کی اِستطاعت اور قدرت سے ہے، بالغ ہونے کے بعد سے جب بھی کسی کو اِستطاعت حاصل ہو جائے یہ فریضہ ذمہ میں لازم ہو جاتا ہے جس طرح نماز اور روزہ بالغ ہوتے ہی اِنسان کے ذمے فرض ہوجاتے ہیں اوراگر اِنسان زکٰوة کے نصاب کا مالک ہوتو زکٰوة بھی فرض ہوجاتی ہے اِسی طرح بالغ ہونے کے بعد جب بھی حج کی اِستطاعت ہوتو حج کا فریضہ عائد ہوجاتا ہے ۔ اورغور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حج کا اَ صل مزہ جوانی ہی میں ہے، ایک تو اِس وجہ سے کہ حج میں جسمانی محنت اورمشقت پیش آتی ہے بلکہ حج کے اَحکام اُسی وقت ذوق وشوق اور زندہ دِلی کے ساتھ ٹھیک ٹھیک طریقہ پر اَنجام دیے جا سکتے ہیں جبکہ اِنسان اِس کا متحمل ہو اور اِنسانی قویٰ اور اَعضاء مضبوط ہوں اوریہ بات عام طورپر جوانی میںہی اِنسان کوحاصل ہوتی ہے نہ کہ بڑھاپے میں اور بڑھاپے میں بھی اگرچہ اِنسان کسی نہ کسی طرح حج کر ہی لیتا ہے لیکن بہت سے کاموں کو ذوق وشوق