ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کسبِ معاش میں شرعی حدود کی رعایت ( حضرت مولانامفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ،اِنڈیا ) شیئر بازار میں سرمایہ کاری : آج کل عالمی معیشت میں شیئرز کے خریدو فروخت کا کاروبار روز بروز بڑھتا جا رہاہے، جب ہم شرعی نقطئہ نظر سے اِس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتاہے کہ چونکہ آج کل اِقتصادی مارکیٹ میں سود اور قمار ریشہ ریشہ میں داخل ہو چکے ہیں اِس لیے اسٹاک ایکسچینج کی دُنیا میں زیادہ تر کاروبار سٹہ بازی پر مشتمل ہوتا ہے اور فرضی کمپنیوں کے فرضی شیئر زاور شیئر ز کی قیمتوں میں مصنوعی اُتار چڑھاؤ کے ذریعہ سرمایہ کی اُلٹ پھیر زور شور سے جاری رہتی ہے، اِس طرح کے سٹے بازی کی اِسلامی شریعت میں دُور دُور تک گنجائش نہیں ہے اور سٹے والے شیئر ز کا کاروبار کسی بھی طرح اِسلامی اُصولوں پر منطبق نہیں ہوسکتا تا ہم سٹے بازی سے ہٹ کر شیئر ز کارو بار کی کچھ شکلیں نکل سکتی ہیں جن کے متعلق علمائِ محققین کی اُصولی طور پر دو راہیں پائی جاتی ہیں : (١) بعض محقق مفتیان و علماء کی رائے یہ ہے کہ شیئرز کا کاروبار شرعی نقطہ نظرسے در اصل ''اجارہ'' کا کاروبار ہے یعنی تمام شیئر ز ہولڈر (خریداران حصص )شریک فی الاموال ہیں اور کمپنی کے ڈائریکٹر ان کے اَجیر ہیں اور چونکہ یہ ڈائریکٹر من مانی طور پر کمپنی کی آمدنی اپنے ذاتی مصارف میںصرف کرتے ہیں اِس لیے اُن کی اُجرت کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی لہٰذا اِس جہالت کی وجہ سے سرے سے یہ پورا معاملہ ہی ناجائز ہے اور کمپنی اگر چہ حلال مصنوعات بناتی ہو پھر بھی اجارہ فاسدہ ہونے کی وجہ سے اِس میں کسی صورت بھی سردست جواز کی گنجائش نہیں ہے۔ اور اگر اجارہ کے فساد کو اور سودی لین دین کے امکان کو ختم کرکے شیئرز کی کوئی صورت نکالی جائے تو اِس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ (تفصیل دیکھیں : فقہی مضامین اَز ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب مفتی جامعہ مدنیہ لاہور : ٤٠١ـ٤١١)