ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر پر کوئی اَثر اَنداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر کو روک سکتا ہے حتی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اُس سے بھی لیا جائے گا۔ وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المومنین ! اُس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیے تاکہ میں اُن کو بتا آئوں کہ میں قتل کر دیا جائوں گا، اُن کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اِس کے بعد واپس آ جائوںگا۔ سیّدنا عمر کہتے ہیں : کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آجائے گا ؟ مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے، کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اِس کا نام تک بھی جانتا ہو، اِس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اِس کی ؟ کیا یہ دس درہم کے اُدھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اُونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اُڑا دیا جانا ہے۔اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر سے اِعتراض کرے یا پھر اُس شخص کی سفارش کے لیے ہی کھڑا ہو جائے، اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔ محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اِس صورتِ حال سے خود عمر بھی متاثر ہیں کیونکہ اِس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے کیا اِس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اِس کے بچے بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑ دیے جائیں یا پھر اِس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے ؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا !