ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پرقارئین کی خدمت میں خیر القرون کا ایک واقعہ پیش کردیا جائے جس میں ملکوتی خصائل نے ہر طبقہ کے اَفراد کی وحشیانہ خصلتوں کی گار کوکھرچ کر درجہ بدرجہ اَخلاقِ حسنہ کے زیور سے آراستہ کر کے پورے معاشرے کو جنت نظیر بنا دیا ہے۔ ''دو نوجوان سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُس کی طرف اُنگلی کر کے کہتے ہیں : اے عمر یہ ہے وہ شخص ! سیّدنا عمر اُن سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اِس شخص نے ؟ یا امیر المومنین، اِس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ سیّدنا عمر پوچھتے ہیں : کیا کہہ رہے ہو، اِس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟ سیّدنا عمر اُس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے اِن کے باپ کو قتل کیا ہے ؟ وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المومنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے اِن کا باپ۔ سیّدنا عمر پوچھتے ہیں : کس طرح قتل کیا ہے ؟ یا عمر، اِن کا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا جو سیدھا اُس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔ سیّد نا عمر کہتے ہیں : پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اِس کی سزا ! ! نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اَٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اُس شخص سے اُس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ اِن سب باتوں سے بھلا سیّدنا عمر کو مطلب ہی کیا ہے ! !