ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
روایت ِ حدیث کا ایک مدعی بشیر بن کعب عدوی بھی تھا وہ حضرت عبد اللہ اِبن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور حدیثیں بیان کرنے لگا حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ نے اُس کی طرف اِلتفات بھی نہیں فرمایا تو بشیر نے کہا میں آنحضرت ۖ کی حدیثیں بیان کر رہا ہوں اور آپ اِلتفات بھی نہیں کر تے، سیّدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ''آنحضرت ۖ کے اِرشادات یقینا اِس اِحترام کے مستحق ہیں کہ اِنسان سراپا گوش بن کر اُن کو سنے اور یاد رکھے، ہماری بھی حالت یہ تھی کہ جب کوئی کہتا ''قال رسول اللہ'' تو ہمارے کان سرا سر اِشتیاق بن جاتے تھے مگرجب لوگوں نے اس مقدس اِنتساب کے ساتھ رطب ویابس سب کچھ بیان کرنا شروع کردیاتو اَب ہم صرف اُن ہی روایتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن سے ہمارے کان پہلے سے آشنا ہوتے ہیں۔'' اِن پختہ کار بزرگوں کے طفیل سے وہ اہلِ علم سب ہی '' صرّاف'' ١ بن گئے تھے جن کو اِن اَکابر سے شرفِ تلمذ حاصل تھا وہ فورًا پہچان لیتے تھے کہ یہ زر خالص ہے اور یہ کھوٹ ہے چنانچہ یہی جابربن یزید جس کا ذکر اُوپر گزرا حضرت سفیان نے فرمایا کہ اِس کی روایت کردہ تیس ہزار حدیثیں میرے پاس ہیں مگر میں قطعاً جائز نہیں سمجھتا کہ اُن میں ایک روایت بھی بیان کروں۔(مسلم شریف ج ١ ص ١٥ ) بہرحال اُن علمی مراکز کی روشنی نے وضع حدیث کی تاریکی کو بڑھنے نہیں دیا لیکن سلسلہ اَحادیث میں یہ بات ضرور پیدا کر دی کہ ہر وہ روایت جس کو حدیث سے تعبیر کیا جائے اِس قابل نہیںرہی کہ اُس کو حدیث مان ہی لیا جائے بلکہ اُس کو حدیث اُسی وقت مانا جائے گا جب وہ آیاتِ قرآنی اور سنت ِ مشہورہ کے مخالف نہ ہو۔ بہر حال سبائی پارٹی اور خوارج کی یہی فتنہ اَنگیزی اور اُن کا یہی دجل و فریب تھا جس سے بچنے کے لیے حضراتِ محدثین نے کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے ایک طرف یہ شرط لگادی کہ راوی ١ پرکھنے والا